عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستان کے مابین قرضہ پر وگرام پر فیصلہ کن مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان نے خسارہ کم کرنے کیلئے ترقیاتی اخراجات میں کمی پراتفاق کرلیا ہے تاہم انرجی کے حوالے سے مختلف ایشوز پر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بات چیت مثبت انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کو پاور سیکٹر کے مسائل درپیش ہیں جن میں بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانا اور سرکلر ڈیٹ میں کمی کیلئے ایک ہزار ارب روپے کا مالی بوجھ صارفین کو منتقل کرنا شامل ہے جس کیلئے آئی ایم ایف مشن اور پاکستانی وفد میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلئے جن شرائط پر دباﺅ ڈالا جارہا ہے‘ وہ پاکستان کے زرمبادلہ سے متعلق ہیں۔ اس دباﺅ کی بنیاد پر پاکستان کو 30 جون تک غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب 20 کروڑ ڈالر تک لانا ہونگے جبکہ ایل سیز کھولنے کیلئے پاکستان کو چار ارب ڈالر درکار ہیں۔ اس سلسلہ میں پاکستان نے آئی ایم ایف مشن کو بتایا ہے کہ حکومت بیرونی ذرائع اور دوسرے ممالک سے سافٹ قرضے لینے کی کوشش کررہی ہے۔ اب تک پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف مشن کو اس امر کا یقین دلایا گیا ہے کہ وفاقی ترقیاتی بجٹ میں سے اخراجات کو کم کیا جائیگا جس سے ساڑھے تین سو ارب روپے کی بچت ہوگی جبکہ غیرترقیاتی اخراجات میں بھی خاطرخواہ کمی لائی جائیگی اور تمام ترقیاتی منصوبوں کی مرحلہ وار مانیٹرنگ ویب سائٹ پر پبلک کی جائیگی۔ اسکے ساتھ ساتھ نجکاری پروگرام فعال بنا کر ریاستی ملکیتی اداروں کو فعال بنانے یا انہیں فروخت کرنے کا لائحہ عمل طے کیا جائیگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے مشن کے ساتھ گردشی قرضے کی ادائیگی کے بنیادی ڈھانچے کی تشکیل پر بھی مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں پچاس فیصد اضافہ کیا جائے جبکہ حکومت بجلی کا ٹیرف 20 سے 33 فیصد تک بڑھانے پر آمادہ ہے۔ اس طرح بنیادی ٹیرف میں اوسطاً سات روپے 74 پیسے فی یونٹ اضافہ ہو سکتا ہے جبکہ اوپر کے سلیب کا اضافہ کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ آئی ایم ایف مرحلہ وار کے بجائے فوری اقدامات کا تقاضا کررہا ہے۔ ابھی آئی ایم ایف مشن کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں جن کی تکمیل پر عوام پر نئے ٹیکسوں اور مزید مہنگائی کی شکل میں کیا قہر ٹوٹے گا‘ یہ سوچ کر بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔
عوام میں سب سے زیادہ تجسس اور تشویش اس حوالے سے ہے کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ملکی معیشت کو سنبھالنے کی خاطر برادر دوست ممالک چین‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور قطر سے مجموعی طور پر بارہ ارب ڈالر کے بیل آﺅٹ پیکیج آسان شرائط پر حاصل کئے گئے جن کی بنیاد پر حکومت کی جانب سے قومی معیشت کے اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔ سعودی عرب نے تو دو سال کے ادھار پر تیل بھی فراہم کر دیا۔ اسکے باوجود پی ٹی آئی حکومت اپنے قائد عمران خان کے دعوﺅں کے برعکس بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنے پر کیوں مجبور ہوئی۔ آئی ایم ایف نے انتہائی ناروا اور کڑی شر ائط پر پاکستان کیلئے صرف چھ ارب ڈالر کا بیل آﺅٹ پیکیج منظور کیا جو ایک ایک ارب ڈالر کی چھ اقساط میں دینا طے ہوا۔ پی ٹی آئی حکومت نے اس بیل آﺅٹ پیکیج کیلئے قبول کی گئی شرائط کے مطابق تین ضمنی میزانیے پیش کرکے عوام پر مروجہ ٹیکسوں میں اضافہ اور نئے ٹیکسوں کے انبار لگائے اور پھر رہی سہی کسر سالانہ میزانیوں میں نکال دی جس کے باعث عوام میں عملاً زندہ رہنے کی سکت ہی ختم ہو گئی۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں پاکستان کو آئی ایم ایف کے بیل آﺅٹ پیکیج کی صرف ایک قسط وصول ہوئی تو پی ٹی آئی حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری چپقلش کے نتیجہ میں دوسری قسط کھٹائی میں پڑ گئی اور پھر نئی حکومت کو بیل آﺅٹ پیکیج کی بحالی کیلئے اب تک جو پاپڑ بیلنا پڑ رہے ہیں‘ وہ عملاً عوام کا کچومر نکالتے اور ملک کی خودمختاری کی بے توقیری کرتے نظر آتے ہیں۔ اب موجودہ حکومت عوام کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کی خاطر کند چھری سے ذبح کرنے کو نہ صرف تلی بیٹھی ہے بلکہ اس کا آغاز بھی کرچکی ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کا سارا بوجھ عوام کی جانب ہی منتقل کیا جاتا ہے جو ”مرے کو مارے شاہ مدار“ کی عملی تصویر بن کر زندہ درگور ہو چکے ہیں۔ پھر بھی غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری سے متعلق مسائل سے انکی خلاصی نہیں ہو رہی اور حکمرانوں کے ہاتھ میں موجود مہنگائی کا بے رحم ہتھوڑا راندہ¿ درگاہ عوام پر ہی برسایا جا رہا ہے۔ اسکے برعکس اللوں تللوں میں مصروف حکمران اشرافیہ طبقات کے ہمہ وقت وارے نیارے ہیں جنہیں آئی ایم ایف کی ناروا شرائط سے کوئی سروکار ہی نظر نہیں آتا اور نہ ہی وہ مہنگائی کے آئے روز اٹھنے والے سونامیوں سے متاثر ہوتے ہیں۔
اصولی طور پر تو ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے ہمیں آئی ایم ایف کی ایسی کوئی شرط قبول ہی نہیں کرنی چاہیے جو ملکی مفاد اور قومی خودداری و خودمختاری کو بٹہ لگانے والی ہو۔ اور اگر ایسی کوئی شرط قبول کرنے کی مجبوری لاحق بھی ہو جائے تو اس کیلئے عام آدمی کے بجائے مراعات یافتہ طبقات کو قربانی دینے پر مجبور کیا جائے۔ حکمران طبقات تو اس معاملہ میں اب تک محض زبانی جمع خرچ سے کام لے کر قہرزدہ عوام کوطفل تسلی دیتے ہی نظر آرہے ہیں۔ انکے روز و شب کس کسمپرسی میں گزر رہے ہیں‘ اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ اس حوالے سے انسانی حقوق کے عالمی ادارے ہیومن رائٹس واچ کی حالیہ رپورٹ بالخصوص ہمارے حکمرانوں کیلئے لمحہ¿ فکریہ ہونی چاہیے جس میں باور کرایا گیا ہے کہ اس وقت لاکھوں پاکستانی غربت کے چکری گرداب میں پھنس چکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غریبوں کا تحفظ پاکستان اور آئی ایم ایف دونوں کی ذمہ داری ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی ایشیا کیلئے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پٹریشیا گوسمین نے اسی تناظر میں اپنے بیان میں اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کی ہے کہ غربت‘ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھنے سے پاکستان کو معاشی بحران کا سامنا ہے جبکہ لاکھوں پاکستانی بنیادی سماجی اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی ادارے کی یہ رپورٹ تو ہماری حکومت کیلئے آئینہ ہونی چاہیے مگر اس آئینے میں حکمران طبقات کو اپنے چہرے نظر ہی نہیں آتے۔ آخر عوام کب تک بھوک پیاس برداشت کرتے اور بنیادی ضروریات تک سے محروم ہو کر شہر خموشاں کی جانب لڑھکتے رہیں گے۔ اس لئے حکمرانوں کو عوام کے تنگ آمد بجنگ آمد والے ردعمل سے پہلے ہی کوئی چارہ کرلینا چاہیے۔ آئی ایم ایف کی شرائط ان کیلئے مجبوری بن چکی ہیں تو ان سے بڑھنے والا اقتصادی اور مالی بوجھ اب مراعات یافتہ حکمران اشرافیہ طبقات کی جانب منتقل کیا جائے۔ عوام میں یہ بوجھ اٹھانے کی اب سکت ہی نہیں رہی۔