شازملک
کار زارِ حیات میں چلتے چلتے کبھی ایسا مقام آتا ہے کہ جب انسان تھکنے لگتا ‘‘ہے ہر شئے سے اسکا من بھرنے لگتا ہے۔ اسکا ظاہر اور باطن ایک ہی نْقطعے پر آ کر مرکوز ہونے لگتے ہیں کہ زندگی نے تھکا دیا ہے اب اسے ٹہر جانا چاہئے ضرورتوں کے شور نے اسکی سماعتیں اور اغراض نے اسکی بصارتیں چھین لی ہیں وہ ہنگامِ زیست کا شور نہیں اپنے من کی دنیا روح کا سکون چاہتاہے۔
آج میرا بھی دل چاہا کہ میں اپنے اندر کی دنیا میں اْتر جاؤں۔۔۔میں دل درگاہ میں بیٹھ کر روح کی دنیا میں اترنا چاہتی ہوں ابھی تو من کے باہر دہلیز پر کھڑی ہوں اور اپنے پورے وجود کو ردھم میں نہیں پاتی۔۔۔۔دل کے آستانے کو صاف کرنے کا مرحلہ درپیش دیکھا جدھر دیکھا۔۔ خواہشوں کا کاٹھ کباڑ ہر طرف بکھرا دیکھا۔۔ سوچ رہی ہوں میں کس کھوج میں ہوں مگر دل کا معبد خانہ
آرزوؤں کے سامان سے بھرا پڑا ہے جب تک اس کو صاف کر کے من مسجد نہ بنا لوں تب تک چین کہاں آئیگا۔۔۔ بڑی مشکل سے اندر داخل ہوئی اور سب سے پہلے اپنی انا کے کلبلاتے کیڑوں کو پکڑا اور کچلا اور اسے باہر پھنکا
پھر رب کے نام سے دنیا داری کی مکڑی کے لگے جالوں کو صاف کیا اور
حسد بغض کینے کے جابجا لگے جالوں کو اتارا اور دل کی دیواروں ہر لگے خود پسندی کے فریم میں جڑے اپنی تعریفوں کے پوسٹرز کو اتار کر پھاڑا اور انہیں کْوڑے دان میں پھینک کر سکون ملا۔۔۔۔آخر میں توبہ کے کے صاف پانی سے دل کے آستانے کو دھو کر پاک کیا اور اس میں محبت کے عطر کا چھڑکاؤ کیا اور پھر عجز کا جا? نماز بچھا دیا اب یہ آستانہ دل درگاہ بنا۔۔ من کا مندر اب من مسجد میں تبدیل ہو گیا جہاں دنیا داری کی آلائشیں نہیں یادِ عشق الہی کی صندلی اگر بتیاں فضاؤں میں پاکیزگی کو بڑھانے لگیں تھیں۔۔ جسم دل دماغ اوع روح نے جہاں اپنے رب کی عبادت کا کیف پانا ہے۔۔۔اسی دل درگاہ میں روح سے ملاقات کر کے اپنی کھوج کے اس سفر کا آغاز کرنا ہے وہ سچی سیدھی راہ ڈھونڈھنی ہے جو سیدھی رب کے پاس لے کر جاتی ہے ،۔۔۔ بندے کو رب سے ملاتی ہے
طکب کی اگر بتیاں سلگ کر محبت کی لو بڑھانے لگیں اور انکی مہک سے دل درگاہ مہکنے لگی تو روح نے دل کو سندیسہ بھیجا کہ وہ دل درگاہ میں شکر کے سجدے کے لئے بے چین و بے قرار ہے۔ْاسکی لطافت نے اسکے نورانیت کو بڑھا دیا اور وہ بے اختیار دل درگاہ میں سجدہ ریز ہوگئی اپنے سوہنے سچے رب کے سامنے سرنگوں ہو کر سجدے میں اپنی بندگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنے ہونے کا احساس ہو رہا تھا عجز کے جا? نماز پر سجدہ ریز روح اپنی عبادت کرتے ہوئے اپنے مقام سے آگہی پا گئی تھی۔اور دل بھی اللہ کی محبت میں سرشار ہو کر ایک ہی تان پر حالتِ وجد میں یہ کہتے ہوئے رقصاں تھا۔۔۔۔ میں ازل سے لے کر تا ابد تیرا رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘ کہہ دی جو بات روح نے کیسے بیاں کریں
ہم رمزِ عشق کس لئے آخر عیاں کریں
جب آگہی ملی ہے تو پھر ظرف بھی تو ہو
کیوں نا شعورِ ذات کو تھوڑا رواں کریں