آئینہ
محمد شعیب مرزا
چند برس پہلے تک فروری کا آغاز ہوتے ہی بسنت کی تیاریاں شروع ہو جاتی تھیں۔ بسنت کا تہوار خاص اہمیت رکھتا تھا۔ مذہبی حلقوں کی تنقید کے باوجود لاہور، قصور اور دیگر شہروں میں پورے زور و شور سے بسنت منائی جاتی تھی۔ تب بھی کروڑوں روپے کی ڈور اورپتنگوں کے ضیاع کے علاوہ بہت سے لوگ زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پہنچ جاتے تھے مگر پھر بھی جوش و خروش سے یہ تہوار منایا جاتا رہا۔ مسئلہ اس وقت پیش آیا جب دھاتی ڈور کا استعمال شروع ہوا اور لوگوں کے گلے کٹنے شروع ہوئے۔ موٹرسائیکلوں پر سوار بہت سے نوجوان اور بچے دھاتی ڈور گلے پر پھرنے کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔ یوں بسنت پر پابندی لگا دی گئی۔ اب بھی کچھ عرصہ کے بعد اس طرح کا سانحہ ہو جاتا ہے۔
فروری کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان میں ادبی میلوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ کتابوں کی رونمائی، مشاعرے اور ادبی اکٹھ کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ادارہ تعلیم و آگاہی نے بیلا جمیل کی زیر نگرانی روم ٹوریڈ کے اشتراک سے پاکستان لٹریسی پراجیکٹ کے تحت بچوں کے ادیبوں، ایڈیٹرز اور السٹریٹرز کی چار روزہ بک ڈویلپمنٹ ورکشاپ مقامی ہوٹل میں کروائی جس میں ملک بھر سے پچاس شرکاء موجود تھے۔ سری لنکا سے آئے ہوئے مہیش پتھی راتھنا اور کراچی سے آئی رومانہ حسین نے چار روز تک بچوں کی نفسیات کے مطابق کہانی کی تخلیق، پیشکش، مصوری اور خوبصورت کتاب کی اشاعت کے حوالے سے تربیت دی۔ کاش ہماری حکومتیں بھی اس طرف توجہ دیں اور نئی نسل کی تربیت کے لئے کتاب کلچر کے فروغ کے لئے اقدامات کریں۔
الحمراء لاہور جو کہ ادبی و ثقافتی تقریبات کا گہوارہ ہے یہاں روزانہ کوئی نہ کوئی پروگرام ہوتا رہتا ہے۔ جب عطاء الحق قاسمی لاہور آرٹس کونسل (الحمرا) کے چیئرمین تھے تو ہر سال بین الاقوامی ادبی کانفرنس منعقد کیا کرتے تھے جس کا بہت شہرہ ہوتا تھا۔ میری درخواست پر انہوں نے اس کانفرنس میں بچوں کے ادب کا خصوصی سیشن بھی رکھا جس میں بہت عمدہ مقالے پیش کیے گئے تھے۔ ان کے بعد یہ سلسلہ تعطل کا شکار تھا۔ معروف مصور اور منتظم ذوالفقار علی زلفی نے ایگزیکٹو ڈائریکٹر لاہور آرٹس کونسل کا عہدہ سنبھالا تو ادبی و ثقافتی تقریبات میں اضافہ ہو گیا۔ نوجوان مصوروں اور گلوکاروں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ ادبی پروگرام بھی ہونے لگے۔ لاہور لٹریری فیسٹیول کے بانی ڈائریکٹر رضی احمد لاہور آرٹس کونسل (الحمرا) کے چیئرمین بنے تو ادبی سرگرمیوں میں اضافہ ہو گیا۔ کراچی میں محمد احمد شاہ تسلسل سے بین الاقوامی اُردو کانفرنس منعقد کر رہے ہیں۔ اب انہوں نے لاہور کا رُخ کیا ہے۔ وہ بیرون ملک بھی ادبی کانفرنسوں کے انعقاد کا ارادہ رکھتے ہیں۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی اور لاہور آرٹس کونسل (الحمرا) کے اشتراک سے دس سے بارہ فروری الحمرا لاہور میں پاکستان لٹریچر فیسٹیول (PLF) کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس میں ملک کے تمام معروف ادیب، صحافی، دانشور، گلوکار، اداکار اور مصور ادب و ثقافت کی مختلف جہتوں پر اظہار خیال کریں گے۔ بچوں کے ادب کا سیشن بھی رکھا گیا ہے جس میں مجھ سمیت بچوں کے ادیب اور مدیر بچوں کے ادب کے فروغ کے حوالے سے تجاویز پیش کریں گے۔ کل پاکستان مشاعرے کے علاوہ نامور گلوکار اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے۔ لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا جائے گا اور مختلف قراردادیں پیش کی جائیں گی۔ لاہور کی شاہراہوں پر کانفرنس کے مندوبین کی تصاویر پر مشتمل فلیکس آویزاں کیے گئے ہیں اور اس کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے جس میں پی آر او صبح صادق اور مندوبین سے روابط کے لیے شکیل خان خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
فروری میں ہی فیض میلہ منعقد ہوگا۔ فیض فیسٹیول 17 سے 19 مارچ کو الحمرا میں ہی منعقد ہوگا۔ اس میں بھی ادب کی کہکشاں شریک ہوگی۔ سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی اس کی روح رواں ہیں۔ اس میں بھی ادبی و ثقافتی حوالے سے بہت سی نشستیں رکھی گئی ہیں۔ لاہور لٹریری فیسٹیول نے بھی لاہور میں خاص طور پر اپنی شناخت بنائی ہے۔ رضی احمد کی نگرانی میں یہ فیسٹیول ہر طبقے کی نمائندگی کرتا ہے۔ مختلف ادبی، سماجی و سیاسی شخصیات اس میں خصوصی طور پر شرکت کرتی ہیں۔ زندہ دلان لاہور اس فیسٹیول کے بھی شدت سے منتظر ہیں۔
راجا جہانگیر انور نے بطور سیکرٹری اطلاعات و ثقافت پنجاب میں ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کو خوب فروغ دیا۔ اب وہ کمشنر بہاولپور ڈویژن کی حیثیت سے صحرا میں ادبی و ثقافتی پھول کھلا رہے ہیں۔ ان کی نگرانی میں کل 8 فروری کو ’’چولستان مشاعرہ‘‘ منعقد ہوا۔ نوجوان ڈپٹی کمشنر بہاولنگر سلمان خان نے بھی بھرپور معاونت کی۔ چولستان جیب ریلی اب ایک روایت بن چکی ہے۔ 100 سے زاید مہم جو اس جیپ ریلی میں شرکت کر رہے ہیں۔ چند سال قبل جب اس ریلی کے انعقاد کا فیصلہ ہوا تھا تو ’’ہوبارہ فاؤنڈیشن‘‘ نے اس کے لئے بھرپور مالی، عملی و تکنیکی معاونت فراہم کی تھی جس کی بدولت ہر سال یہ ایونٹ خوب سے خوب تر ہوتا جا رہا ہے۔ ر اجا جہانگیر انور بھی اس حوالے سے خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں۔ تقریبات کی لمبی فہرست ہے بس دعا ہے کہ ہمارا پیارا وطن پاکستان ادب و ثقافت، امن و آشتی کا گہوارہ بنا رہے اور اس کے شہریوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھرتی رہیں۔ آمین۔
٭…٭…٭