ریکوڈک کی خطیر رقم کا درست استعمال بیوروکریسی کا امتحان

قومی افق … فیصل ادریس بٹ 
حکومت بلوچستان مرکزی حکومت سے صوبے کے لئے مزید مالی امداد مانگ رہی تھی تاکہ شدید مالی بحران کا شکار صوبہ بلوچستان میں سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی ممکن بنائی جا سکے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی درخواست پر وفاق کی جانب سے مالی بحران سے نکلنے کے لئے مدد بھی کی گئی۔ مالی امداد کی گئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ یہ ایک اچھی خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے حکومت بلوچستان کو اس کے حصے کے طور پر پہلی رقم تیس لاکھ ڈالر کی قسط کی شکل میں ملی ہے جس سے کم ا ز کم حکومت بلوچستان کو مالی پریشانیوں سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ سالانہ اربوں روپے فنڈز آتے ہیں مگر یہ کہاں جاتے ہیں؟ اس کا کچھ پتہ نہیں چل پاتا۔ علاقے کے ایم این اے، ایم پی ایز جنہیں یہ رقم ملتی وہ اگر اس کا پچاس فیصد بھی اپنے اپنے علاقے کی ترقی پر خرچ کرتے تو آج پورا بلوچستان پیرس بنا ہوتا۔ مگر ایسا کچھ بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ پورا صوبہ ابھی تک صدیوں پرانے ماحول میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ کوئٹہ جیسے آزادی کے بعد بھی چھوٹا لندن کہا جاتا تھا اب اُجڑا لندن نظر آتا ہے۔ 
اب اس وقت بلوچستان میں جس طرح مالی بحران شدت سے موجود نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے لگتا ہے کہ اس وقت صوبے میں ملازمین کو ادا کرنے کے لئے بھی رقم موجود نہیں ہے۔ ان حالات میں گزشتہ روز ریکوڈک منصوبے کے حوالے سے ایک بڑی خبر ملی ہے کہ بیرک گولڈ نے بلوچستان حکومت کو تیس لاکھ ڈالر کا چیک دیا ہے۔ اس سے امید ہے کہ وہاں کی پریشان حال صوبائی حکومت کو کم از کم فوری طور پر کچھ سہارا مل جائے گا اور سرکاری ملازمین کو ادائیگی کے علاوہ بھی دیگر معاملات چلانے کے لئے بھی کچھ رقم مل جائے گی۔ خدا کرے یہ رقم ایمانداری سے خرچ ہو کیونکہ یہ بلوچستان کی اپنی کمائی ہے اس کے اپنے حصہ کی رقم ہے جس کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ کسی طرف سے کوئی الزام نہ آئے۔ اس وقت بلوچستان کو دستیاب فنڈز سے ایک ایک پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کرنا ہوگا۔ الیکشن قریب ہیں اور سیاسی مخالفین الیکشن جیتنے کے لئے تیاری کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک سب سے آسان کام یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو بدنام کیا جائے۔ اس کے مالی کرپشن کے سچے جھوٹے قصے عوام میں پھیلا کر ان کو گمراہ کیا جائے تاکہ وہ موجودہ حکمرانوں کو ووٹ نہ دیں۔ لوگ کافی باشعور ہو چکے ہیں۔ وہ پارٹی کی بنیاد پر تو ووٹ ڈالتے ہیں مگر امیدوار کی کارکردگی ضرور دیکھتے ہیں۔ ریکوڈک کی خطیر رقم کس طرح حکومتی احکامات کے بعد بیوروکریسی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی ہے یہ اب بلوچستان میں تعینات بیوروکریسی پر منحصر ہے۔
 نگران وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کے بارے میں جب سے ہوش سنبھالا یہی دیکھتے اور سنتے آئے ہیں کہ وہ ایک ’’دھیان کلینڈر‘‘ ٹائپ خدمات انجام دیتے ہوئے عبوری عرصہ پروٹوکول انجوائے کرتے گزار دیتے ہیں۔ پہلی مرتبہ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے بارے میں دل و دماغ ایسا  لکھنے کے حوالے سے  آمادہ نہیں ہو پا رہے  کیونکہ محسن نقوی ایک انتہائی ذمہ دار اور بارہ کروڑ عوام کی محبت سے سرشار وزیراعلیٰ پنجاب کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ وہ وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ کے اربوں روپے کے اخراجات کو ختم کر کے نہ صرف اپنا او ر اپنے سٹاف کا کھانا اپنی جیب سے اپنے گھرسے منگواتے ہیں بلکہ پرویزالٰہی دور میں کابینہ سے منظور شدہ سادگی مہم پر حقیقی طور پر گامزن بھی ہیں۔ محسن نقوی صحت کے شعبے میں اپنے قریبی دوست گوہر اعجاز کی مشاورت سے انقلابی اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ پنجاب کی بارہ کروڑ عوام کو سہولیات دینے کے حوالے سے ان گنت اجلاسوں میں احکامات بھی جاری کر رہے ہیں۔
پنجاب میں کافی حد تک نگران سیٹ اپ کے لئے ٹرانسفر پوسٹنگ شفاف طریقے سے مکمل کیے جانے پر بھی وزیراعلیٰ محسن نقوی داد کے مستحق ہیں۔ ایک طویل رات کے بعد افسران کے لئے اُجالے کی نوید خوش آئند ہے۔ ماضی میں پیسے لے کر ٹرانسفر پوسٹنگ کا بازار گرم رکھا جاتا تھا ان بولیوں کا قلع قمع کرنے کاکریڈٹ محسن نقوی کی حکومت کو ہی جاتا ہے۔ ڈی جی ایل ڈی اے عامر احمد خان نے بھی اپنی مختصر ترین تعیناتی کے دوران صوبائی دارالحکومت میں انتہائی اہم اور بڑے فیصلے کیے ہیں معزز ہائیکورٹ کا اُن کے تبادلے کو روکے جانے کے احکامات قابل ستائش ہیں۔ عامر احمد خان کے خلاف پراپیگنڈا ہونے کی وجہ بھی اُن کی ایمانداری اور انتھک محنت ہے جس سے مخالفین نالاں نظر آتے ہیں۔ 
 سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ لاہور میں طویل عرصہ خدمات انجام دیتے رہے ہیں اور لاہور کے کلچر جرائم پیشہ گروہوں سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ بلال صدیق کمیانہ کو ماضی میں مختصر تعیناتی دی گئی تھی جس میں وہ اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کا لوہا نہ منوا سکے تھے اب امید ہے کہ وہ لاہور کو امن کا گہوارہ بنا کر ہی دم لیں گے۔ ڈی آئی جی آپریشن افضال کوثر انتہائی انتھک محنتی اور ایماندار افسر سمجھے جاتے ہیں یہی خصوصیات اُن کی سفارش ہیں۔ سُنا ہے کہ اسی وجہ سے اُن کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ذوالفقار حمید کو اسپیشل برانچ تعینات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اُن کی ایمانداری اور غیر جانبداری سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے ۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان جو انتہائی پیشہ ور افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں اور پنجاب میں اپنی نوکری کا زیادہ حصہ گزار چکے ہیں۔ ڈاکٹر عثمان چاہتے ہیں کہ کسی افسر کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔ یہی سوچ کر انہوں نے ایس ایچ اوز سے لے کر ایڈیشنل آئی جیز تک کی فہرستوں کی تیاری کروائی ہے جس میں اُن کی سیاسی وابستگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر عثمان یہ فہرستیں ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ ذوالفقار حمید سے تصدیق کروا رہے ہیں کہ کس حد تک کس افسر کا سیاسی جماعت سے تعلق ہے، کیا فہرست میں اُس کے خلاف سازش کر کے نام تو نہیں ڈال دیا گیا۔ ان الزامات کے تمام جوابات ذوالفقار حمید کے ذریعے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان تک پہنچیں گے۔ یہ اقدامات کرنے کا مقصد صرف اور صرف پولیس کو سیاسی وابستگی سے دور رکھنا اور اولین فرائض میں عوام کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنانا ہے۔ 
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن