جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے توعدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے: چیف جسٹس پاکستان

Feb 09, 2023 | 17:03

ویب ڈیسک

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طورپر نامکمل رکھا گیا ہے۔ ملک میں شدید سیاسی تناؤ اور بحران ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے عام انتخابات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے ہی سے ممکن ہے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اسپیکررولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022 میں عام انتخابات کرانے کے لیے تیار ہوں گے۔ موجودہ پارلیمنٹ کو دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے۔عدالتِ عظمٰی نے ریمارکس دیے کہ موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترامیم پر عمران خان کے حق دعویٰ نہ ہونے پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت آرٹیکل 184(3) پر محتاط رہے. عدالت آرٹیکل 184 تھری کے تحت کسی بھی درخواست پر قانون سازی کالعدم قراردے گی تو معیار گر جائے گا.وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ آرٹیکل 184 تھری کا اختیارعوامی معاملات میں ہوتا ہے جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ موجودہ کیس کے حقائق مختلف ہیں۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ نے نیب ترامیم چیلنج کی ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ملک میں شدید سیاسی تناؤ اوربحران ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی۔ پی ٹی آئی نے پتا نہیں کیوں پھر پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کر لیا۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ درخواست گزارعمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں۔ عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔ عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کوئی ازخود نوٹس نہیں لیا بلکہ نیب ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے۔ عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کرچکی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے۔ ایک دیانت دار وزیراعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔ آرٹیکل 58 ٹو بی ڈریکونین لا تھا۔عدلتِ عظمٰی نے مذید ریمارکس دیے کہ عدالت نے 1993 میں قرار دیا کہ حکومت غلط طریقے سے گئی .لیکن اب انتخابات ہی کرائے جائیں۔ اب عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے. اس کیس میں عمران خان کا حق دعوی ہونے یا نہ ہونے کا معاملہ نہیں بنتا۔وفاقی حکومت کے وکیل دلائل میں مزید کہا کہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی شخص پارلیمان سے نکل کر عدالت آیا ہو۔ اس طرح سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ایک شخص جب اقلیت میں ہے اور اس کے حقوق متاثرہوں گے تو وہ عدالت کے سوا کہاں جائے؟ جو بھی ضروری ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ انتخابات سے قبل قانون میں وضاحت ضروری ہے۔ پارلیمنٹ چھوڑنے کے بعد ملک میں انتخابات کے لیے ہر کسی کو ایک سے زائد نشست پر انتخابات لڑنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت میں ایک شخص کو ایک ہی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہے۔ ایک سے زیادہ نشست سے انتخابات لڑنے سے ہاریا جیت کی صورت میں عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ذوالفقاربھٹو نے ایک سے زائد سیٹ پرانتخابات لڑے تھے۔ بلا مقابلہ نشست جیتی تو باقی انتخابات معمول کے مطابق ہوئے تھے۔وکیل نے کہا کہ یہ 1970ء سے پہلے کا معاملہ تھا۔ عوام نے 11 برس بھٹو کے بلا مقابلہ جیتنے کی بھاری قیمت کی صورت میں اتاری تھی۔ ایک عدالت جمہوریت نہیں بچا سکتی۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ 40 سال پہلے ایک بین الاقوامی اخبار میں آرٹیکل لکھا گیا۔ آرٹیکل کے مطابق لوگ سیاستدانوں کو اپنی پہچان چاہتے ہیں نہ ہی ججز سے حکومت کرانا۔عدالت حکومت نہ کرے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کوئی حکومت کرنا نہیں چاہتی۔ عدالت ازخود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے۔ سیاسی خلاعوام کے لیے کٹھن ہوتا ہے۔ جب سیاسی بحران پیدا ہوتا ہے توعدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتے ہیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے استعفے منظور ہوئے تو عدالتوں میں چلی گئی۔ اب تمام بحث پارلیمان کے بجائے عدالتوں میں ہو رہی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ عمران خان کو بلاکر پوچھا جائے کہ اسمبلی نہیں جانا تو الیکشن کیوں لڑ رہے ہیں۔ دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا عدالت اسمبلی بائیکاٹ پر کسی کا حق دعویٰ مسترد کرسکتی ہے؟ نیب ترامیم صرف اپنے فائدے کے لیے کی گئیں۔ نیب ترامیم چند افراد کے لیے کی گئیں جن کے اپنے مفادات تھے۔وفاقی حکومت کے وکیل نے کہا کہ عمران خان اور ان کی کابینہ ارکان کے نیب کے حوالے سے بیانات ریکارڈ پرہیں۔ عمران خان نے ہنگامی بنیادوں آرڈیننس لاکر نیب قانون میں ترمیم کی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرڈیننس عارضی قانون سازی ہوتی ہے، حالیہ ترامیم مستقل نوعیت کی ہیں۔ آرڈیننس لانے کی وجہ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونا بھی ہوتی ہے۔ پارلیمان میں ہونے والی بحث میں حصہ نہ لینے کی وضاحت کا بھی انتظار ہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ عمران خان کے آرڈیننس اور حالیہ ترامیم میں کیا فرق ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کے آرڈیننس میں ترمیم کرکے نیب قانون لایا گیا۔ نیب قانون پر پارلیمان میں بحث عمران خان کے نہ ہونے کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ سینیٹ میں تحریک انصاف موجود تھی، بحث بھی ہوئی۔


 

مزیدخبریں