مولانا حافظ زبیر حسن
’’حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا پہلوان اور طاقت ور وہ شخص نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘(بخاری و مسلم)
انسان جب اپنے مزاج،خیالات، اصولوں اور خواہشات کے خلاف کوئی بات ہوتی دیکھتا ہے تو اس کی طبیعت میں شدت پیدا ہوتی ہے اسے غصہ کہتے ہیں۔ انسان کے اندر غصہ ہونا ایک خوبی ہے اور غصہ نہ ہونا ایک عیب ہے اس لیے کہ اگر انسان اصولوں اور مزاج کے خلاف بات دیکھنے کے باوجود طبیعت میں شدت محسوس نہ کرے تو یہ بزدلی ہے جسے عربی میں جبن کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ؐ نے اپنے لیے یہ دعا مانگی ترجمہ:اے اللہ میں بزدلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔لیکن اب یہ طے کرلینا چاہئے کہ کونسا غصہ اچھا ہے اور کونسا برا ہے۔ اس کے لیے بہت آسان سی پہچان ہے کہ اگراحکام شرعیہ یعنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے احکامات کی خلاف ورزی پر غصہ آئے تو بہت اچھا ہے لیکن اس غصہ پر عمل اور غصہ کا اظہار بھی احکام شرعیہ کے مطابق ہونا ضروری ہے ورنہ یہ غصہ بھی وبال بن سکتا ہے جیسے اولاد کے نماز نہ پڑھنے پر غصہ آنا، ان کی نافرمانی پر غصہ آنا، دوسرے لوگوں کو اسلامی احکامات کے خلاف عمل کرتے دیکھ کر غصہ آنا، یہ غصہ کمال ایمان کی علامت ہے اس بارے میں آپؐ نے یہ ہدایات دیں کہ اگر تم میں سے کوئی برائی ہوتے دیکھے تو اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو زبان سے روکے اگر یہ بھی نہ کرسکتا ہوتو کم ازکم اس برائی کو دل سے برا سمجھے۔‘‘
اگر غصہ اپنے مفاد، اپنے خیالات، ذاتی اصولوں اور ذاتی خواہشات کے خلاف ہوتادیکھ کر آئے تو اس غصہ کو دبانا اور بجھانا ضروری ہے یہی غصہ برا ہے۔ قرآن حکیم میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی ’’وَال?کَاظِمِی?نَ ال?غَی?ظ‘‘(وہ لوگ جو غصہ کو بجھانے والے ہوتے ہیں) معلوم ہوا کہ انسان کے اندر غصہ ہونا چاہئے لیکن متقی کی خوبی یہ ہے کہ وہ اس پر قابورکھتا ہے۔ شریعت میں جس غصہ کی ممانعت اور اس کی برائی بیان کی گئی ہے اس سے مراد وہی غصہ ہے جو نفسانیت کی وجہ سے ہو، اور اس غصہ میں مبتلاہوکر انسان اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرجائے اور احکام شریعت کا پابند نہ رہے لیکن جو غصہ اللہ کی خاطر ہو، حدود الٰہیہ سے تجاوز نہ کرے تو یہ کمال ایمان کی نشانی اور جلال خداوندی کا عکس ہے۔
اب ہم اگر اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہمیں شاید پانچ چھ فیصد ہی جائز غصہ آتا ہو ورنہ معاشرہ میں عموماً ذاتی مفاد، ذاتی خواہشات، ذاتی اصولوں کے خلاف ہوتا دیکھ کر ہی غصہ آتا ہے اور اسی قسم کے غصہ نے گھروں، محلوں، علاقوں اور خاندانوں میں فسادات کی آگ بھڑ کا رکھی ہے ادب عربی کا ایک بڑا قیمتی جملہ ہے اَوَّلْ ال?غَضَبِ جْنون? وآخِرْہ? نَدَم?۔(غصہ کی ابتداء پاگل پن ہے اور اس کا انجام شرمندگی ہے) انسان غصہ میں مبتلا ہوکر……بلڈ پریشر ہائی (دوران خون تیز) ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو طاقتور اور بہادر سمجھتا ہے اور برا بھلا کہتا ہے‘ مارتا پیٹتا ہے‘ توڑ پھوڑ کرتا ہے‘ بسا اوقات قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے لیکن یہ بات بھی قطعی ہے کہ چاہے کتنے ہی مضبوط اعصاب کا مالک ہو کتنا ہی شقی القلب کیوں نہ ہو آخر کار اپنے کیے پر شرمندہ ضرور ہوتا ہے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑدے، بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘ غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پانے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہوتو اسے چاہیے کہ بیٹھ جائے اگر غصہ ختم ہوجائے تو ٹھیک ورنہ وہ لیٹ جائے۔‘‘ (رواہ الترمذی عن ابی ذر?) دراصل جب انسان غصہ میں ہوتا ہے تو اس کے اعصاب میں تناؤ آجاتا ہے جب وہ اپنی جسمانی کیفیت کو بدلے گا تو اعصابی تناؤ میں کمی واقعی ہوگی اور اس طرح غصہ کم ہوجائے گا۔ غصہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ہدایت دی کہ ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ اس وقت خاموشی اختیار کرے۔‘‘(رواہ احمد عن ابن عباس?) بارہا تجربہ میں یہ بات آئی ہے کہ انسان غصہ کے وقت جو منہ میں آئے کہہ دے تو اس سے حالات اور زیادہ بگڑ جاتے ہیں لیکن غصہ کے وقت خاموش ہوجائے تو ذہن ٹھنڈا ہونے کے بعد اس بات کااتنا عمدہ علاج اور حل ذہن میں آتا ہے کہ وہ مسئلہ بخوبی حل ہوجاتاہے۔ ابوداؤد میں عطیہ بن عروہ? کی روایت میں غصہ کا ایک عمدہ علاج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’غصہ شیطان کے اثر سے آتا ہے اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی اور آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرلے‘‘ اور طبی نقطہ نظر سے بھی یہی ہدایت کی جاتی ہے کہ جب بلڈپریشر ہائی(دوران خون تیز) ہوجائے چہرہ تپنے لگے تو ٹھنڈے پانی کے چھینٹے منہ پر مارے جائیں۔ اب ارشاد نبوی پر عمل کرتے ہوئی آدمی غصہ کو بجھائے تو ثواب بھی ملا اور علاج بھی ہوا۔ غصہ پر قابو پانے کی فضیلت حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت سے بہت اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’کسی بندے نے کسی چیز کا کوئی گھونٹ ایسا نہیں پیا جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے اس گھونٹ سے افضل ہو جسے کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر پی جائے۔‘‘(رواہ الترمذی وابوداؤد)بیہقی میں حضرت انسؓ سے ارشاد نبویؐ منقول ہے‘‘ جو کوئی اپنے غصہ کو روکے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے اپنے عذاب کو روکے گا۔اللہ رب العزت ہمیں جائز غصہ میں بھی شرعی حدود سے تجاوز کرنے سے محفوظ فرمائے، اور ناجائز غصہ میں اپنے آپ پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے گھر، محلے، خاندان اور پورا معاشرہ امن سکون کا گہوارہ بن جائے اور آخرت میں ان تمام انعامات واعزازت سے فیض یاب ہوں۔
غصے کا اظہار احکام شرعیہ کی روشنی میں
Feb 09, 2024