برادر ملک چین میں قوم نئے چینی سال کا جشن منانے میں مصروف ہے۔ ہم اس اہم اور غیر معمولی ایونٹ پر پاک چین دوستی کے نعروں میں چینی قوم کو مبارک بادوں کے گلاب پیش کرتے ہیں۔ یکم فروری سے چھ فروری 2024 تک جاری رہنے والے اس سپرنگ فیسٹول میں سجاوٹ، سالانہ ڈنر، فائر کرکٹرز، ڈریگن ڈانس، فائرورکس اور سرخ لفافوں کا تبادلہ تقریبا ہر گھرانہ کی راویت کا حصہ ہے ان تعمیری سرگرمیوں میں ہر شخص پیار، الفت اور اپنائیت کا ترجمان بن کر ایک دوسرے کی خوشیوں میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔یکم فروری کو چین میں سالِ نو اور بہار کے تہوار (Spring festival) کا ا?غاز ہوتا ہے ، عیدین کی طرح اسپرنگ فیسٹیول چینیوں کا سب سے بڑا تہوار کہلاتا ہے۔ چین کے نئے قمری سال کا آغاز ہر سال 20 جنوری سے 20 فروری کے درمیان اس دن شروع ہوتا ہے جب دوسرا نیا چاند طلوع ہوتا ہے۔ اِس سال کا یہ نیا سال یکم فروری ء 2024کو نمودار ہوا ۔ چینی کیلنڈر 12 سالوں پر مشتمل ہوتا ہے جس کا ہر سال کسی نہ کسی جانور سے منسوب ہوتا ہے۔ موجودہ سال اڑدہا کا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے اس موقع پر شہریوں کو ایک ہفتے کی سرکاری چھٹی دے دی جاتی ہے۔ چینی عوام دنیا کے تمام کونوں سے اس موقع پر اپنے آبائی گھروں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں تاکہ نئے سال کا آغاز اپنے پیاروں کے ساتھ کرسکیں۔ چینیوں کے گھر لوٹنے کے اس عمل کو چینی زبان میں 'چن ین' کہا جاتا ہے۔
چینی عقیدے کے مطابق سال نو کے آغاز پر جن خواہشات کا اظہار کیا جاتا ہے وہ آرزوئیں پورے سال میں کسی نہ کسی شکل اور کسی نہ کسی سطح پر ضرور پوری ہوتی ہیں۔ چینی سال نو پر دارالسلام برونائی، انڈونیشیاء، ملائشیاء، شمالی کوریا، سنگاپور، ویت نام اور جنوبی کوریا میں بھی سرکاری تعطیل کی شمع روشن کی جاتی ہے۔پاک چین کے تعلقات پر ہر سال گہری محبت کی چھاپ لگتی ہے۔ پاک چائنا دوستی کا سال بہ سال بدلتا ہوا نیا انداز اسی دوستی اور اسی تعلق کو مزید گہرا کر تا ہے۔ یہ سلسلہ کل کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے۔محبت اور عقیدت کا یہ سفر میز الفت کی منزلیں استوار کرے گا۔ پاک چین دوستی کا محور دونوں مالک کے عوام کی جانثار پالیسیاں ہیں جو نسل در نسل پھیلی اس جادواں دوستی کی ضامن ہیں۔ ہر دو ممالک کے باشندے جس محبت اور جس عقیدت سے پاک چین دوستی کے گن گاتے ہیں اس سے اندازہ لگانا آسان ہے کہ مستقبل میں دوستی اور تعلق کا پہاڑ مزید کتنی بلندیوں کو چھوئے گا…مجھے سماجی، عوامی اور تعلیمی حلقوں کی نمائندہ شخصیات سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرتے ہوئے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح ہمارے ’’بڑے ‘‘دوستی کو نیا انداز دلانے میں سر گرم ہیں گزرتے وقت کے ساتھ یہ سلسلہ چاہت خوشیوں کے مزید رنگ بکھیرے گا۔
میرے شہر مظفر آباد سے تعلق رکھنے والے بیشمار تعلق رکھنے والے بے شمار طلباء طالبات چین کی مختلف جامعات میں زیر تعلیم ہیں۔ بہت سے نوجوان تعلیم مکمل کرکے چین سے لوٹ آئے ہیں۔ برادر ملک میں دو تین سال قیام کو یہ طلباء طالبات اپنی خوش بختی گردانتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر عملی زندگی میں انہیں پاکستان کے ساتھ کسی اور ملک میں خدمت کا موقع دستیاب ہوا کہ وہ چین کے انتخاب کو ترجیح دیں گے۔ دراصل وہ محبت اور دوستی کے اس سفر میں اپنا حصہ ڈالنے کے خواہش مند ہیں تاکہ عشق و مستی اور رواداری و یکجہتی کا قرض لوٹایا جاسکے۔ مجھے مختلف ایونٹ کے دوران چین سے متعلق نوجوانوں کو پاکستانی گیتوں اور ملی نغموں پر فارمنس کرتے دیکھ کر جو خوشی ملتی ہے اس کا اظہار الفاظ میں مشکل ہی نہیں نا ممکن بھی ہے۔ دعا ہے کہ دوستی اور کامرانی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا رہے آمین۔
سی پیک کے تحت بڑے بڑے منصوبے بروئے کار ہیں۔ان میں پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ ایم ایل ون ہے۔ایم ایل ون منصوبہ سی پیک کابھی سب سے بڑا منصوبہ ہے، اس منصوبے کے تحت ریل کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری ہوگی۔14 سال پہلے جس منصوبہ پر میں نے دستخط کئے تھے. ایم ایل ون پراجیکٹ کوسی پیک میں انتہائی اہمیت حاصل ہے، ریلوے کی ترقی ملکی ترقی کے لئے ناگزیر تھا .ایم ایل ون منصوبہ کے بعد ایم ایل 2، ایم ایل 3 یہ روہڑی جنکشن ریلوے اسٹیشن سے شروع ہو کر چمن ریلوے اسٹیشن پر ختم ہوتی ہے ، ایم ایل-4 یہ لائن ایران میں داخل ہوتی ہے اور زاہدان کو جاتی ہے۔ منصوبہ ہے.خنجراب ریلوے یا قراقرم ریلوے پاکستان کے گلگت بلتستان کے ضلع ہنزہ نگر کو براستہ درہ خنجراب عوامی جمہوریہ چین کے خود مختار علاقے شنجیانگ سے ملانے کا ایک منصوبہ ہے .
منصوبہ سے نہ صرف ٹرینوں کی تعداد بڑھے گی بلکہ سفر کا دورانیہ بھی کم ہو گا.ایم ایل ون منصوبہ سے کراچی سے پشاور تک 1780 کلومیٹر کا ڈبل ٹریک پر کام ہو گا اور اس منصوبہ پر چین کے تعاون سے 6.80 بلین ڈالر لاگت آئے گی. اس منصوبہ پر 90 فیصد پاکستانی لیبر کام کرے گی جس سے ڈیڑھ سے 2 لاکھ افراد کو روزگار میسر آئے گا. ریلوے میں حادثات کی بڑی وجہ ریلوے کراسنگ ہے، اس منصوبہ سے خودکار سسٹم شروع ہو گا جس سے نہ صرف حادثات سے بچا جا سکے گا بلکہ سفر کی تکمیل میں بھی وقت کی بچت ہو گی.ایم ایل ون ملک کی تقریباً 71 فیصد آبادی سے گزر کر جائے گا جس سے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات میسر آئیںگی۔