بھارت کے مسلمان اور’’بلڈوز راج‘‘

    دو ہفتہ قبل 21جنوری کو زعفرانی رنگ کے مفلر گلے میں ڈالے اور راشٹریہ سیوک سنگھ کے پرچم اٹھائے سینکڑوں ہندو انتہا پسند ممبئی شہر کے بازاروں میں مسلمانوں کے کاروباری مراکز ، دکانوں اور ٹھیلے لگانے والوں پر ٹوٹ پڑے۔ ہاتھوں میں لوہے کے راڈ ، ڈنڈے اور ہاکیاں پکڑے، جے شری رام کے نعرے لگاتے یہ ہندو بلوائی مسلمانوں کی دکانوں میں داخل ہوتے اور بے دردی سے توڑ پھوڑ شروع کردیتے۔ شو کیس اٹھا کر باہر سڑکوں پر پھینکتے ، بکھرنے والی اشیاء چند لمحوں میں یوں غائب ہو جاتیں جیسے جنگل میں مرنے والے جانور کو گدھ نوچ کر کھا جاتے ہیں اور پنجر باقی رہ جاتا ہے۔ سڑکوں پر کھڑی اور راہ چلتی گاڑیوں کو ان کے شیشوں پر لگے اللہ اکبر کے اسٹیکروں سے شناخت کرنے کے بعد انہیں چندلمحوں میں توڑ پھوڑ کر کھٹارا بنادیا جاتا۔ یہی حال رکشہ اور دیگر مال برداری کیلئے کام آنے والے منی ٹرکوں کے ساتھ کیا جارہا تھا۔ 
 ویسے بھی بھارت میں مسلمان اپنے حلیے اور شکل و صورت سے بآسانی پہچانے جاتے ہیں۔ ممبئی کے بازاروں میں حملہ آور ہندو بلوائیوں کو یہ بھی علم تھا کہ کون سی دکان ، ٹھیلا اور چائے و کھانے پینے کا ہوٹل مسلمانوں کا ہے۔ حیران کن طورپر اس کاروائی میں مسلمان دکانداروں ، گاڑی و رکشہ ڈرائیوروں کوگالیاں دینے کے علاوہ کچھ نہیں کہاجارہا تھا۔ صرف وہی مسلمان تشدد اور مارپیٹ کا نشانہ بن رہے تھے جو توڑ پھوڑ کرنے والے ہندو بلوائیوں کو روکنے کی کوشش کرتے۔
    اس پوری کاروائی کو دکانوں کی اوپری منزل پر بنے رہائشی فلیٹس کے مکین دیکھ رہے تھے اور ان میں سے کچھ مکین  مرداور خواتین موبائل فون کے ذریعے سارے مناظر عکس بند بھی کر رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے وائرل ہونے والی ویڈیوز میں ریکارڈ ہونے والی آوازوں سے صاف لگ رہا تھا کہ میجسٹی مارکیٹ میں جہاں مسلمانوں پر ظلم کیا جارہا تھا حملہ آور مقامی رہائشیوں کیلئے بالکل اجنبی تھے۔ ویڈیوبنانے والوں کی باہمی بات چیت سے عیاں تھا کہ مسلمانوں کو مالی طور پر نقصان پہچانے کا یہ عمل آئندہ منعقد ہونے والے بھارتی انتخابات میں جیت کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف جاری انتخابی مہم کا حصہ ہے تاکہ ہندو ووٹروں کو مسلمانوں کے خلاف مذہبی طو ر پر بھڑکا کر انہیں بی جی پی کے ساتھ جوڑے رکھا جاسکے۔ 
دوسرے روزکے بھارتی اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق صرف میجسٹی مارکیٹ کے مسلمان دکاندار ہی ہندوتوا کے ظلم کا شکار نہیں ہوئے تھے ممبئی شہر کے دیگر بازاروں میں بھی مسلمان دکانداروں اور چھابڑی والوں کے خلاف یہی عمل دہرایا گیا تھا۔ اس پوری صورتحال کا تاریک پہلو یہ ہے کہ جہاں اور جس بازار میں بھی تاجر نشانہ بنائے گئے۔ممبئی کی پولیس ہندو بلوائیوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے ان کے ہمراہ تھی جنہوں نے مزاحمت کرنے پر ممبئی کے مختلف بازاروں سے 42سے زیادہ مسلمان تاجروں اور ٹھیلے والوں کو گرفتار کر کے ان پر مذہبی منافرت پھیلانے اور ہندووں کو اشتعال دلانے کا الزام عائد کر کے انہیں جیل میں بند کردیا۔
    اس پور ی کاروائی کے بعد دوسرا ظلم یہ ہواکہ دوسرے روز ممبئی کے میونسپل ادارے بلڈوزروں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف برپا کیے گئے فساد سے متاثرہ علاقوں میں پہنچ گئے۔ جہاں مسلمانوں کی بہت سی دکانوں اور کاروباری مراکز کے فرنٹ  ناجائز تجاوزات کے نام پر گرادیئے گئے۔ اس بربریت کے خلاف بھارت میں ایمنٹسی انٹرنیشنل کے نمائندے اکر پٹیل نے بیان دیا کہ ممبئی میں ہی نہیں بھارت کے دیگر شہروں میں بھی مسلمانوں کو ڈرانے اور آنے والے انتخابات میں سیاسی عمل سے دور رکھنے یا انہیں اپنے ووٹ بی جی پے کے امیدواروں کو دینے کیلئے ان کے خلاف بلڈوزروں کا استعمال جاری ہے۔ 
بھارت کی مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کیخلاف ان کی املاک گرانے کیلئے بلڈوزروں کا سب سے پہلے استعمال بھارتی ریاست اتر پردیش کے ہندو انتہا پسند وزیراعلیٰ یوگی ادیتے ناتھ نے 2019کے انتخابات کے بعدکیا تھا۔ جس میں بی جے پی مخالف مسلمانوں کو سزا دینے کیلئے بلڈوزوں کے ذریعے مسلمانوں کی بہت سی آبادیوں کو ملیا میٹ اور 13مساجد شہید کردی گئی تھیں۔اس وقت بھی مساجد سمیت مسلمانوں کے گرائے جانے والے گھروں کو ناجائز تعمیرات کی فہرست میں شامل بتایا گیا تھا۔ جس پر ’’ٹی آر ٹی ورلڈ‘‘ نیوز چینل نے ’’بلڈوزر راج‘‘ کے نام سے اپنی رپورٹ کی سرخی میں مسلمان اقلیت کے خلاف پورے بھارت میں بلڈرز کو ایک بڑے خطرناک ہتھیار کے طو ر پر استعمال کا نام دیا تھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ انتخابات سے قبل بی جے پی مسلمانوں کو اس قدر خوف میں مبتلا کردینا چاہ رہا ہے کہ وہ اگر بی جے دیتے تو ان کے مخالفوں کو بھی نہ دیں۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن