’برکاتِ معراج شریف تا قیامت، صَلّوْ عَلَیہ ِ وَ آ لِہ !‘‘

معزز قارئین! پاکستان سمیت دْنیا بھر کے مسلمان ہر سال 26 رجب اْلمرجب کو اپنے اپنے انداز میں عقیدت و احترام سے ’’شب ِ معراج‘‘ مناتے اور اللہ تعالیٰ سے دْعائیں بھی مانگتے ہیں۔ سبھی مساجد ، سرکاری اور غیر سرکاری عمارتوں پر چراغاں کِیا جاتا ہے۔ اِس بار بھی 26 رجب اْلمرجب (7فروری کی شب) کو یہی ہْوا۔ رحمت اْللعالمین ’’برّاق‘‘ نامی چوپائے پر سوار ہو کر جبرائیل ؑکی مْعیت میں معراج کے سفر پر روانہ ہْوئے۔ لفظ بْراق، بَرق(بجلی) کی طرح چمکیلا اور تیز رفتار۔ براق کے بارے میں علاّمہ اقبال نے فرمایا کہ …
اِک نْکتہ میرے پاس ہے، شمشِیر کی مانِند !
بْرّندہ وصیقل زدہ، رَ وشن و برّاق!
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گْم ہے!
مومن کی یہ پہچان کہ گْم اْس میں ہیں آفاق!
یعنی’’مَیں تجھے ایک نْکتہ بتاتا ہوں۔ جو تلوار کی طرح کاٹ کرنے والا۔ صَیقل کِیا ہوا اور رَوشن۔ کافر کی پہچان یہ ہے کہ وہ خود کو کائنات میں گْم کردیتا ہے۔ جبکہ مومن کی پہچان یہ ہے کہ کائنات اْس میں گْم ہو جاتی ہے‘‘۔معزز قارئین! سب سے اوپر کا آسمان (آٹھواں آسمان ) ’’عرش ِ اعظم‘‘ اور ’’کْرسی‘‘ کہلاتا ہے اور دْنیوی ریاست ، سلطنت، تاج و تخت اور حکومت کو ’’کْرسی  ثانی‘‘ کہا جاتا ہے۔
’’ حضرت غوث اْلاعظم! ‘‘
معزز قارئین !  غوث اْلاعظم حضرت شیخ عبداْلقادر جیلانی نے ’’کْرسی  ثانی‘‘ پر بھی رونق افروز قصر رسالت (رسالت کے محل ) سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ …
اے قصرِ رسالت از تو ، معمور!
منشورِ لطافت از تو ، مشہور!
خْدّامِ تْرا غْلام گشتہ!
کی خْسرو کی قباد و فغفور!
یعنی۔ ’’ یا رسول اللہ !۔ رسالت کا قصر آپ کی وجہ سے معمور ہے۔ لْطف و کرم کا منشور آپ ہی کے الطاف سے مشہور ہے۔ کی خْسرو، کی قباد اور فغفور (قدیم ایران اور چین کے عظیم حکمران ) سب آپ کے خادموں کے غْلام ہیں‘‘۔ 
’’خواجہ غریب نواز!‘‘
معزز قارئین! ’’ نائب رسول فی الہند‘‘ خواجہ غریب نواز حضرت مْعین اْلدّین چشتی کا کمال ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے نہ جانے کسے مخاطب کرتے ہْوئے کہا کہ …
راہ بکشاء کہ دِل میل ببالا دارد!
پردہ بر گیر کہ جاں عزم تمایا دارد!
یعنی۔ ’’راستہ کھول دو  کہ دل آسمانوں کی طرف جانا چاہتا ہے۔ پردہ ہٹا دو کہ ( اے محبوب) میری جان  تیری دِید کرنا چاہتی ہے! ‘‘۔
’’ علاّمہ اقبال! ‘‘ 
معزز قارئین ! ’’ شب معراج ‘‘ کے عنوان سے علاّمہ اقبال  نے کہا کہ … 
اختر شام کی، آتی ہے  فلک سے آواز !
سجدہ کرتی ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کی رات !
رہ یک گام ہے، ہمت کے لئے عرش بریں !
کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات !
تاریخی کْتب اور کْتب روایات کی رْو سے ’’ ْشاہداتِ معراج کے مطابق’’آپ نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ جِن کی زبانیں اور ہونٹ کاٹے جا رہے تھے‘‘۔ آپ کو بتایا گیا کہ ’’یہ آپ کی اْمّت کے وہ واعظ اور خطیب ہیں جو دوسروں کو لمبی چوڑی نصیحتیں کرتے ہیں مگر خود اْن پر عمل نہیں کرتے!‘‘ ممکن ہے کل شب۔ معراج کی رات نوابوں اور جاگیرداروں کی سی زندگی بسر کرنے والے واعظ اور خطیب حضرات نے اپنی ادائوں پر واقعی غور کیا ہوگا؟ معراج کے مشاہدات میں نبی اکرم نے کچھ ایسے لوگوں کو بھی دیکھا جو سڑا ہوا گوشت کھا رہے تھے۔ آپ کو بتایا گیا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو سرمایہ پرستی کی ہوِس میں مْبتلا تھے اور حقوق اْلعباد سے پہلو تہی کِیا کرتے تھے! ‘‘۔
’’شیخ سعدی شیرازی !‘‘
معزز قارئین! ایران کے نامور صوفی شاعر حضرت مصلح الدین شیخ سعدی شیرازی کا یہ نعتیہ کلام دْنیا بھر میں پسند کِیا جاتا ہے ، فرماتے ہیں …
بَلَغَ العْلیٰ بِکَمالِہ
 کَشَفَ الدّْجیٰ بِجَمَالِہ 
حَسْنَت جَمِیعْ خِصَالِہ
 ’’ صَلوّْ عَلَیہِ وَ آ لِہ‘‘
ترجمہ:۔
’’(آپ)اپنے کمال کی وجہ سے بلندی پر پہنچے
’’(آپ نے) اپنے جمال سے تاریکیوں کو روشن کِیا
’’(آپ کی) سب ہی عادتیں بھلی ہیں 
’’(آپ پر) اور آپ کی اولاد پر درود پڑھو‘‘
رسالت مآب اور آپ کی اْولاد پر دْورد پڑھنے والوں کا کون مقابلہ کرسکتا ہے؟۔
معزز قارئین! میرا ایمان ہے کہ ’’برکاتِ معراج شریف تا قیامت اِنسانیت کو اپنی پناہ میں رکھیں گی۔!۔ 
معزز قارئین!  مَیں نے تو  ایک عام مسلمان کی حیثیت سے کئی نعت ہائے رسول مقبول لکھی ہیں ، 13 سال پہلے ’’رَحمتہ اْللِعالمِین‘‘ کے عنوان سے مَیں نے جو، نعت لکھی تھی اسکے چار شعر پیش خدمت ہیں… 
اے اِمام اْلانبیا، محبوبِ ربّ اْلعَالَمِیں!
آج تک چشم فلک نے، آپ سا دیکھا نہیں!
        رَحمَتْہ لِلعَالَمِیں
آپ کے قدموں کو ، سینے پر لِیا ، خندہ جبیں!
کِس قدر خْوش بخت ہے، مکّہ، مدینہ کی زمیں!
        رَحمَتْہ لِلعَالَمِیں
آپ تو بِعثَت سے پہلے ہی تھے ، صادِق اور امیں!
آپ کا کردار ہے ، ہر دَور میں ، اعلی تریں!
        رَحمَتْہ لِلعَالَمِیں
بارگاہِ حقّ میں لے کر ، جب گئے ، رْوح اَْلامَیں!
آپ کی خاطر بنا ، عرشِ بریں ، فرشِ زَمیں!
رَحمَتْہ لِلعَالَمِیں

ای پیپر دی نیشن