کراچی: قمر خان
ملک بھر کی طرح شہر قائد میں بھی الیکشن2024کے سلسلہ میں پولنگ کا عمل بغیر کسی بڑے ناخوشگوار واقعہ‘ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا۔ معمولی نوعیت کی چند شکایت کے علاوہ کہیں سے کوئی بڑی شکایت الیکشن کمیشن کو موصول نہیں ہوئی۔پولنگ کے اختتام کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے افواہوں کا بازار گرم کردیا گیا ۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینیئر رہنما معروف پارلیمنٹیرین ڈاکٹر فاروق ستارپر قاتلانہ حملہ کی اطلاعات جھوٹ نکلیں جس کا ظاہری مقصد یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ کسی طرح عوام میں بد دلی پھیلا کر انہیں مشتعل کیا جا سکے۔ تاہم فوری طور پر ایم کیو ایم پاکستان اور ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے ویڈیو بیان سامنے آگیا جس کے بعد یہ افواہیں دم توڑ گئیں۔ ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر ارشد ووہرہ پر حملہ خبر پر ترجمان ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے بلاول ہاؤس کے چیف گارڈ اکرم بلوچ کی سرپرستی میں قومی اسمبلی کے امیدوار پر حملہ کیاجس میں کئی کارکنان زخمی ہوئے تاہم ڈاکٹر ارشد ووہرہ خوش قسمتی سے محفوظ رہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کارکنان CMS اسکول نشتر روڈ میں دھاندلی کر رہے تھے‘ روکنے پر مشتعل ہوگئے۔
شہر قائد سے قومی اسمبلی کی 22 اور سندھ اسمبلی کی 47 نشستوں پر مجموعی طور پر 1981 امیدوار مد مقابل تھے جس کے لیے 5ہزار 336پولنگ اسٹیشنزبنائے گئے تھے۔ یہاں کل رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 92 لاکھ 86ہز241 تھی۔
آج کے انتخابات پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ پرجوش نظر آئیں ۔ ضلع وسطی‘ شرقی‘ کورنگی‘ ملیر اور ضلع غربی میں خواتین خانہ صبح ووٹ کاسٹ کرنے پہنچ گئی تھیں جبکہ اس وقت پولنگ اسٹیشن پر مردوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔
نوجوانوں کی کثیر تعدادبھی خواتین کی طرح صبح سویرے ووٹ کے لیے پہنچی اور نہ صرف ووٹ کاسٹ کیا بلکہ اس کے بعد بھی مختلف پولنگ اسٹیشنوں اور سڑکوں پر مٹر گشت کرتے ہوئے تعطیل اور الیکش سیزن کا اختتام انجوائے کیا۔ آج بہت بڑی تعداد میں ان نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے بھی اپنی زندگی کا پہلا ووٹ کاسٹ کیا جو الیکشن2018 کے موقع پر 18 سال کی عمر کو نہیں پہنچے تھے جس کے بعد الیکشن 2024 ان کے لئے پہلا الیکشن تھا۔
دن 12 بجے کے بعد مردوں کی قطاروں نے خواتین کو شکست دیتے ہوئے اپنی برتری دکھائی اور مردوں کی قطاریں پولنگ بند ہونے تک تقریباً ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر نظر ائیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ہدایت کے تحت شام پانچ بجے تک پولنگ اسٹیشنز پہنچنے والے تمام ووٹرز کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔
بزرگ اور خصوصی افراد کی بڑی تعداد نے بھی آج ووٹ کاسٹ کیا تاہم وہ اپنے لئے ناپید سہولیات پر قدرے ناراض نظر آئی۔کراچی کے ڈسٹرکٹ ایسٹ کے حلقے این اے 237میں جھکی کمر کے ساتھ 90سالہ بزرگ خاتون مائی ماکا نے ووٹ کاسٹ کیا۔ خصوصی افراد کے لیے بیشتر پولنگ اسٹیشن پر نہ تو ویل چیئرز موجود تھیں اور نہ ہی ان کی آسانی کے لیے پولین اسٹیشنوں میں داخلہ کیلئے مخصوص ’’ریمپ‘‘ بنائے گئے تھے تاکہ وہ سیڑھی چڑھنے کے مرحلے سے بچ سکتے۔ عمر رسیدہ بزرگوں نے بھی پولنگ اسٹیشن پر عام لوگوں کی طرح گھنٹوں قطار میں لگ کر اپنی قومی ذمہ داری پوری کی تاہم وہ بھی اس نظام سے شاکی نظر آئے کہ جہاں بزرگ اور خصوصی افراد کے لیے کسی قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی۔ ان بزرگ اور شہری افراد کو سیکیورٹی اہلکار و دیگر درد مند حضرات مدد اور تعاون ضرور کرتے رہے اور ان سے دعائیں لیتے رہے تاہم سرکاری سطح پر اس کے لیے کوئی سہولت کا موجود نہ ہونا اپنی جگہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
انتخابی عمل کے پر امن اور بلاروک ٹوک پایہ تکمیل تک پہنچنے میں امن و امان کی بہترین صورتحال کا بھی بڑا عمل دخل تھا کہ عوام نے بلاخوف گھروں سے نکل کر ووٹ کا سٹ کیا۔امن وامان برقرار رکھنے کے لئے قانون نافذ کرنے والے ادارے پولیس اور دیگر ایجنسیاں انتہائی سرگرم تھیں جن کی کاوشوں کے سبب ہی کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا۔ پولیس افسران اور رینجرز نہ صرف شہر میں گشت کرتے رہے بلکہ پولنگ اسٹیشنز پر اپنی موجودگی ظاہر کرتے رہے جس کے سبب کہیں بھی امن و امان کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔
شہر میں امن و امان اور پولنگ کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے کے لیے نگرانی کے لیے 252 مقامات پر دہز کیمرے لگائے گئے تھے جن کے ذریعے سیوک سینٹر میں قائم کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں 24 گھنٹے انتخابی عمل اور امن و امان کی نگرانی کی جاتی رہی جبکہ شہر میں صحت و صفائی اور دیگر انتظامات انتظامی اور شہری ادارے مکمل طور پر فعال تھے۔ نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے نگراں وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز اور آئی جی سندھ پولیس رفعت مختار کے ہمراہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے پولنگ کے عمل کا فضائی جائزہ بھی لیا۔
غیر ملکی مبصرین کی بہت بڑی تعداد اور صحافیوں نے بھی پولنگ اسٹیشنوں کا وقتاً فوقتاً دورہ کیا اور کسی حد تک اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ انہوں نے بیشتر جگہوں پر بہت ہی نارمل انداز سے پولنگ کا عمل پایہ تکمیل تک پہنچتے دیکھا۔ کئی حلقوں میں بروقت پولنگ شروع ہونے کی بھی شکایات سامنے آئیں۔ انٹرنیٹ اور ٹیلی فون سروس بند ہونے کے سبب الیکشن کمیشن اور دیگر مانیٹرنگ اداروں کو بھی شکایات نہ پہنچ سکیں جس سے مجموعی تاثر یہی لیا گیا کہ پولنگ اور انتخابات بغیر کسی پریشانی و مسائل کے انجام پائے۔
پولنگ کا وقت الیکشن کمیشن کی جگہ جانب سے صبح آٹھ بجے رکھا گیا تھا تاہم بیشتر پولنگ اسٹیشنوں پر صبح آٹھ بجے پولنگ شروع نہ ہو سکی اور صبح اٹھ بجے انتظامات کو آخری شکل دی جا رہی تھی جس کے سبب پولنگ میں خاصی تاخیر ہوئی اور اس موقع پر عملے اور ووٹرز کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی دیکھنے میں آیا۔
ادھر بیلٹ پیپر چھیننے اور بیلٹ باکس غائب ہونے کی اطلاعات گزشتہ روز رات گئے ہی ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ صوبائی الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے سخت ہے ایکشن لیا اور پولنگ اسٹیشنوں پر پولیس اور رینجرز کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔بعض پولنگ اسٹیشنوں پر پاکستان پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم پاکستان اور جماعت اسلامی کے امیدوار ایک دوسرے پر بیلٹ پیپرز چھیننے‘ بوگس ووٹ ڈلوانے اور انتخابی عملہ کو ہراساں کرنے کے الزامات لگاتے نظر آئے۔ کئی مقامات پر ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے نشاندہی کی گئی جہاں پر پولنگ اسٹیشن سے یا تو بلڈ پیپر چھین لیے گئے یا اسٹیمپ لگے ہوئے بیلٹ پیپر برآمد کیے گئے تاہم یہ شکایات الیکشن کمیشن میں درج کی جا چکی ہیں اور اس پر فیصلہ ہونا باقی ہے ووٹنگ کے دوران مختلف پولنگ اسٹیشنز پر معمولی جھگڑوں کی بھی اطلاعات ملی تاہم پولنگ روکنے کی نوبت نہیں آئی اور موقع پر ہی مسائل حل کیے جاتے رہے۔
آج کے انتخابی عمل کے لیے ووٹرز کی بڑی تعداد اگرچہ ووٹ دینے کے لیے دلچسپی رکھتی تھی تا ہم ایک بہت بڑا طبقہ موجودہ انتخابی نظام اور حکومتوں سے ناراض دکھائی دیا ووٹرز کا کہنا تھا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ معاشی صورتحال ہے جو حکومت بنائے وہ عوام کو ریلیف کے اقدامات انجام دے بجلی گیس قیمتوں میں کمی کرے اور کھانے پینے کی اشیاء مناسب داموں پر فراہم ہونی چاہیے۔ ووٹرز کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ کون حکومت بنا رہا ہے اور کسے یہ موقع نہیں مل رہا۔ ووٹرز کی رائے صرف یہی تھی کہ جو بھی حکومت ائے وہ عوامی مسائل حل کرے اور ملک کو بھی ترقی کی راہ پر گامزن کرے۔