لاہور مسلم لیگ ن کا قلعہ

صد شکر کہ قومی انتخابات کا مشکل مرحلہ پایہ تکمیل تک پہنچا اور انتخابات کے التوا کے بلند و بانگ دعوے اور افواہیں دم توڑ گئیں اور وطن عزیز میں جمہوری روایات کی پاسداری کا علم بلند ہوا جس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں نے نے جدوجہد کی اور نگران حکومت، پاک افواج اور ذمہ دار اداروں نے اس کے بروقت اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ یوں تو ملک کے طول و عرض میں بہت سے انتخابی معرکوں نے عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے انہی میں سے ایک حلقہ این اے 130 اسلام پورہ بھی ہے، جو لاہور کے سب سے بڑے انتخابی معرکہ کا روپ دھار چکا ہے یہاں سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا مقابلہ پی ٹی آئی کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہے جبکہ جماعت اسلامی کے صوفی خلیق احمد بٹ قومی اسمبلی اور ملک محمد منیر صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں۔ تحریک لبیک کے امیدوار بھی بہت سنجیدگی سے انتخابی عمل کا حصہ بنے ہوئے ہیں لیکن اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں ہے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد بھی پی ٹی آئی کے دور میں حلقہ کے پسماندہ علاقوں میں خاصی سرگرم رہی ہیں۔ انہوں نے خواتین کیلئے باقاعدگی سے طبی کیمپ اور زچہ بچہ کیلئے سہولیات فراہم کیں۔ ان کے ورکرز بھی فعال رہے، یہی وجہ ہے کہ حلقہ میں ان کا ووٹ بنک مسلم لیگ ن کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ 
………
ایڈیٹر نوائے میگزین نے اس حلقے کا دورہ کیا جس کا احوال درج ذیل ہے
یہ حلقہ اسلام پورہ(کرشن نگر) سنت نگر، نیشنل ٹائون، نیشنل پارک، چوہان روڈ، آوٹ فال روڈ، ریواز گارڈن، راجگڑھ، ساندہ، پریم نگر، بیڈن روڈ، گوالمنڈی، کریم پارک، بلال گنج پر مشتمل ہے۔ یہ گنجان علاقہ زیادہ تر کمرشل ہے اور مکینوں کا بڑا ذریعہ روزگار کاروبار ہے، میاں نواز شریف چونکہ خود تاجر برادری سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ان کے تینوں ادوار میں تاجر طبقہ کو سہولیات اور آسانیاں فراہم کی گئیں اور یہ ن لیگ کا مضبوط گڑھ ہے۔ ایک دور میں اسلام پورہ میں ملک منظور مانی اور ان کے بھائی عفی ملک مرحوم ن لیگ کے بڑے سپورٹرز تھے۔یہ دونوں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، اب ن لیگ کے دیرینہ اور مخلص کارکن سید عظمت ، ارشد مغل، زین خان، الیاس خان، بائو رفیق گجر خاصے متحرک ہیں۔ 
اسلام پورہ (کرشن نگر) سنت نگر، نیشنل ٹائون، ساندہ روڈ پر عید کا سماں تھا، زیادہ تر ووٹرز بائیکس پر ووٹ کاسٹ کرنے آ رہے تھے اسلام پورہ ساندہ موڑ اور ہیپی ہائی سکول، نیشنل ٹائون سے گزرنے کا رستہ نہیں تھا، ہر جانب گاڑیاں، بائیکس لگی تھیں اور ٹریفک رک رہی تھی۔ ہیپی ہائی سکول کے گرائونڈ کے چار اطراف میں بے حد رش تھا اور اندر جانے کے لئے خواتین کی لمبی قطاریں لگی تھیں جبکہ ٹینٹ کے دوسری جانب سڑک کے کنارے چند گائے، بھینس بھی بندھی تھیں۔ لیگی کارکنوں کے چہرے بغیر تعارف کے بتا رہے تھے کہ وہ میاں نواز شریف کے سپورٹر ہیں۔
یونین کونسل 65 دفاتر ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن مین ساندہ روڈ نزد حق آرتھوپیڈک ہاسپٹل بہت رش تھا اور ووٹر بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ کرنے آ رہے تھے۔ ن لیگ کے کیمپ میں لیگی کارکنوں کا اژدھام تھا جبکہ تین لیگی خواتین ورکر بھی مدد کے لئے موجود تھیں اس موقع پر لیگی رہنما ارشد مغل، عثمان خالد چودھری، بلال خان چودھری عامر مغل، کاشف ریاض، نوال چودھری، سہیل ہارون، عمران مغل، احسن اکرم اور دیگر نے بتایا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کو ووٹ کاسٹ کیا ہے۔ ارشد مغل نے بتایا کہ گزشتہ انتخابات میں ن لیگ کو کارنر سے لگا دیا گیا تھا، اب موقع ملا ہے تو ان کا جوش و خروش آپ کے سامنے ہے۔ الائیڈ سکول ساندہ کیمپس میں ڈاکٹر یاسمین راشد کاایک کیمپ بالکل خالی تھا، ایک میز اور پانچ کرسیاں لگی تھیں تھوڑے فاصلہ پر پی ٹی آئی کے دوسرے کیمپ میں ایک لڑکی عیشہ دیگر دو خواتین کے ساتھ موجود تھیں عیشہ نے بتایا پولنگ بوتھ پر پی ٹی آئی کے جن کارکنوں کی ڈیوٹی تھی وہ نہیں آئے یہ مردوں کا بوتھ ہے وہ پنڈی سٹاپ چونگی امرسدھو سے صبح سے آئی ہوئی ہیں اسے میز اور کرسیوں کی رکھوالی کے لئے بٹھا گئے ہیں۔ نوائے وقت نے کرسیوں کے عقب میں یاسمین راشد کے رکھے بینرز کے بارے میں دریافت کیا تو عیشہ نے بتایا کہ صبح جو سر اور لڑکے آئے تھے انہوں نے یہ بینر اتار کر پیچھے رکھے تھے۔ اس پولنگ بوتھ کے باہر پندرہ بائیکس لگی تھیں۔ ایلیٹ فورس کے جوان اور اے ایس آئی(داتا صاحب) الیاس نے بتایا کہ پرامن ماحول میں بہترین پولنگ ہو رہی ہے۔ یہاں موجود علی مرتضیٰ چودھری(ساندہ) اور قاضی محمد فیضان(ساندہ) نے پی ٹی آئی اور علی احسن(نیشنل ٹائون) نے تحریک لبیک کو ووٹ ڈالنے کا بتایا۔ نیشنل ٹائون، اسلام پورہ اور دیگر علاقوں میں ڈاکٹر یاسمین راشد کے انتخابی کیمپوں میں تین تین چار چار نوجوان ووٹرز کی رہنمائی کر رہے تھے۔
حلقہ میں جماعت اسلامی اپنے رفاہی کاموں کے حوالے سے مشہور ہے اور یوسی ملک محمد منیر تین مرتبہ چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں۔ جماعت نے حلقہ میں 25-30 کیمپ لگائے ہیں۔ سابق ناظم حافظ نسیم احمد چشتی، جماعت اور ریلوے سپریم یونین کے سرگرم رہنما شیخ محمد انور فرحان شوکت ہنجرا شیخ ایاز، ملک الیاس، معظم، امتیاز احمد، اسرار احمد، عبدالحسیب ایڈووکیٹ حلقہ میں خاصے سرگرم رہے ہیں۔
………
خواتین کی لمبی قطاریں ان کے سیاسی شعور کی آئینہ دار
ارض پاک کی خواتین کے سیاسی شعور میں اضافہ ہوا ہے جس کا اندازہ قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر خواتین کی882 کی ریکارڈ تعداد سے بخوبی کیا جا سکتا ہے جنہوں نے آج انتخابی معرکوں میں مردوں کے شانہ بشانہ اور بالمقابل حصہ لے کر اپنی عددی اور معاشرتی اہمیت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور 2024ء کی خواتین نے یہ ثابت کیا کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ کسی بھی طرح مردوں سے کم نہیں۔ گزشتہ سال کی نسبت انتخابی میدان میں اترنے والی خواتین کی تعداد میں82 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جو اس امر کی دلیل ہے کہ وہ ملکی سیاست کے اتار چڑھائو اور سیاسی پارٹیوں کی کارکردگی کا بخور جائزہ لے رہی ہیں۔ ان میں سے اکثر کا تعلق بڑے سیاسی گھرانوں سے ہے۔ ان میں مریم نواز شریف، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، ڈاکٹر یاسمین راشد، مہر بانو قریشی، سائرہ افضل تارڑ، قیصرہ الٰہی، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، شازیہ عطا مری، تہمینہ دولتانہ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، زرتاج گل، مہرین انوار راجہ، عالیہ حمزہ، سیدہ نوشین افتخار، ڈاکٹر زیبا وقار وڑائچ، غلام بی بی بھروانہ نمایاں ہیں۔ ان میں بیشتر خواتین کے مدمقابل میدان سیاست کے منجھے ہوئے اور نامور سورما بھی ہیں لیکن یہ خواتین مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود جوانمردی سے ان کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ خانہ دار، ملازمت پیشہ اور گھریلو خواتین کی لمبی قطاریں ان کے جوش و خروش اور ملکی سیاست میں ان کے اہم کردار کی آئینہ دار ہیں۔
……
پولنگ سٹیشنز پر میلے کا سماں اور نوجوانوں کا کتھارسس
یہ وہی زندہ دلان کا شہر ہے جس کی یہ کہاوت زبان زد عام ہے کہ’’ست دن تے اٹھ میلے، کم کراں میں کہرے ویلے، لاہور حضرت داتا گنج بخش کی نگری، اولیاء کرام کا شہر اور میلوں ٹھیلوں کے حوالے سے اپنی خاص شہرت اور پہچان رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کے عفریت، بدامنی، مہنگائی، بے روزگاری اور مذہبی فرقہ پرستی نے اس شہر بے مثال کی رونقیں، مجلسیں اور محفلیں سب چھین لیں، یہ میلے اور عرس ثقافت، کلچر، تہذیب و تمدن، روزگار اور صحت مندانہ تفریحی سرگرمیوں، باہمی میل ملاپ اور بھائی چارے کا بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ ان میں شرکت سے خاص کر نوجوانوں کا کتھارسس ہو جاتا تھا، اب ہمارے نوجوانوں کے لیے تفریح اور کتھارسس کا کوئی بڑا ذریعہ باقی نہیں بچا، ایسے میں کوئی بھی بڑا اجتماع انہیں اپنی طرف اٹریکٹ کرتا ہے اور خاص کر سیاسی جلسے، جلوس اور پولنگ کے روز ان کا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔
نوجوان اپنے ہم عمر دوستوں اور عزیز واقارب کے ساتھ ایسے اجتماعات میں بھرپور شرکت کرتے ہیں موجودہ الیکشن میں بھی نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد نے پولنگ سٹیشنز کا رخ کیا، یہاں ان کی حلوہ پوری، بریانی، نان، حلیم، چائے اور بوتلوں سے تواضع ہو رہی تھی اور ایک کے بعد ایک دور چلتے دکھائی دے رہے تھے، مسلم لیگ ن کے سپورٹرز کی جانب سے یہ اہتمام شام تک چلتا رہا اور پولنگ سٹاف کے لئے بھی کھانے اور چائے وغیرہ کا بھرپور اہتمام ہوتا رہا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...