سورج کی کرنیں ، امیدِ صحر کا پیغام


 قاضی نامہ… اشفاق احمد قاضی
ishfaqahmedqazi@yahoo.com

لہلاتا دلکش سبزہ اپنے حسن اور امن پرد ست قدرت کا شکر ادا کر رہا تھا۔ ہر طرف درختوں کی گھنی شاخوں پر بیٹھے پرندے اجتماعی عبادت میں مصروف تھے۔درختوں کے نیچے بیٹھے جانور آرام و راحت سمیٹتے ہوئے زندگیوں کے تسلسل کو تقویت دے رہے تھے۔میں کھیت کے کنارے کھڑا قدرت کی لاتعداد رحمتوں ، نعمتوں پر غور کرنے میںغرق تھا۔گرمی اور سردی دونوںمیرے انتہائی تھوڑے فاصلے پر آکرکھڑی ہو گئں۔دونوں کی رسمی علیک سلیک ہوئی۔سردی بولی!گرمی شہزادی زندگی کیسی گزر رہی ہے۔ گرمی شہزادی بولی!شفقت قدرت کی انتہائی لاتعداد رحمتیں، نعمتیں صبح سے شام تک زمین کے زرے زرے تک شاہانا وقار سے نچھاور کرتے ہوئے زندگیاں تخلیق کرتی ہوں۔زندگیوں کو بیداری، چستی ، پھرتی،صحت،حسن دے کر اپنے نور کوہر شے کی گہرایوں تک پہنچاتی ہوں۔زندگیوں کے دامن صبر و قناعت سے بھر جاتے ہیں۔گرمی شہزادی نے رک کر سردی کی طرف دیکھا۔پھر بولی!سردی باجی آپ خیال کیا کریں۔چلتی پھرتی صحت مندخوبصورت ترین زندگیوں کوا تھا ہ مضبوط پنجوں میں دبوچ کر ٹھر ٹھراتے ہوئے بیمار کرتی ہو۔یخ بستہ ہواوں سے کپکپی طاری کرتی ہو۔خوبصورت گھنے درختوں میں زندگیاں رہائش رکھتی ،خوراک کھاتی ، تحفظ پاتی۔ درختوں کا بڑھنا، پھیلنا،پھولنا رک جاتا ہے۔ پتے ذردہو کر گرنے سے درخت برہنہ ہو جاتے ہیں۔سر سبز لہلاتے کھیت اجاڑ دیتی ہو۔گھاس جس کے کھانے سے جانور دودھ دیتے ہیں، جس دودھ سے مکھن ،گھی ،لسی، بنتی ہے۔وہ گھاس سکڑ کر جل کر مرتی ہے۔ہر طرف ویرانی دہشت ناک سناٹا چھا جاتا ہے۔شفاف پاکیزہ چشمے برف بن جاتے ہیں۔سمندرمیں زندگیاں پلتی ہیں۔رہائش رکھتی،تحفظ پاتی اور بہت کچھ سمندر برف بن کر اپنے مقدس وجود میں زندگیوں کو برف کے کفن میں لپیٹ دیتا ہے۔ہر طرف موت حکمرانی کرتی ہے۔ تیزی آسانی سے روشنی مدھم ہو کر ختم ،تاریکی کے تکلیف دہ لمحات طویل ترین ہو جاتے ہیں۔ ہمدردی ،شفقت ،احسان محبت کے بول بولنے والے ہونٹ سکڑ کر پھٹ جاتے ہیں۔حیات مخلوقات کے الجھے ہوئے مسائل حل کرنے والے ہاتھوں پر دستانے چڑھا دیتی ہو۔ دہشت ناک مسائل حل کرنے والے بدن کو موٹے لباس سے ڈھانپ کر انگیٹھی کے قریب بیٹھا دیتی ہو۔یا بند کمرے کے بسترے میںلیٹا دیتی ہو۔ مسرتو ں کے گیت گاتے اور محنت مشقت کرتی زندگیوں کو سست کائل ہڈحرام بیکار کرتی چلی جاتی ہو۔خوراک کم سے کم اور بھوک لمحہ بہ لمحہ بڑھتی جاتی ہے۔سردی باجی نے گرمی شہزادی کی گفتگو سن کر شرمندگی کی وادی میں چلی گئی۔خاموشی کے بعد سردی باجی بولی !میری بنی برف سے میرے جانے کے بعد چشمے بنتے ہیں جن سے زندگیاں اپنی پیاس بجھاتی ہیں۔بہتے چشمے ،جنت کی نعمتیں تخلیق کرتے ہیں۔گرمی شہزادی سردی کی بات کاٹ کر بلند آواز میں بولی! رحمت کے فرشتے آسمان میں تمھارے کارناموں پر اجتماعی ماتم کر رہے ہوتے ہیں۔قدرت کی تخلیق کی ہوئی زندگیاں کمزور حقیر ہو کر فنا کی طرف جا رہی ہوتی ہیـں۔سردی نے مار دیا۔توبہ سردی توبہ کی چیخ پکار سنی جاتی ہے۔گرمی شہزادی رک گئی۔شاں شاں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ میرا بدن پسینے سے بھر گیا۔سورج کی کرنوں کا رخ آسمانی بلندیوں کی طرف۔اجتماعی آواز افسردہ لہجے میں کرنیں بولیں۔ سورج کی کرنیں رحمتوں سے لدی ہوئی ،آسمانی بلندیوں سے زمین پر اترتی ہو ئی زندگیوں کی ہر ضروریات پوری کرتیں ہیں۔ کرنیں دست قدرت کا انتہائی بڑا عطیہ ہیں۔بے حس ، لاپرواہ اشرف المخلوقات نے دھیان دیا،نا قدر کی نا ہی جائز فائدہ اٹھایا۔سورج کی کرنیں، قدرتِ خدا وندی کے توانائی سے لدے ہوئے الہامی خزانے مخلوقِ خدا پر صبح سے شام تک نازل ہوتے ہیں۔کرنیں وجود کی رگ رگ تک پہنچ کر وجو د کو صحت، چستی ، پھرتی دے کر روحانی مسرتوں کا چشمہ بنتی ہیں۔وجو د کو الہامی تازگی ،فہم و عقل نصیب کرتی ہیں۔وجود کامیاب اور خوشحال لوگوں میں شامل ہو کر برگزیدہ ہستی بن جاتا ہے۔ کچھ دیر سورج کی کرنیں خاموش ہوئیں۔ پھر بلند آواز میں بولیں۔ 
جہاں سورج کی کرنیں نہیں پہنچ سکتی وہی مٹی ، وہی آب و ہو مٹی میں پودا پیدا نہیں ہوتا۔مٹی کو کرنوں کی توانائی ملنے سے مٹی بیج کی ماں بن کر پودا پیدا کرتی ہے اور پھر پرورش کرتی ہے۔ وجود کو جب سورج کی کرنیں نصیب ہوتی ہیں ،پرواز والے پر بنتے ہیں۔ بجلی کی جعلی گرمی سے پیدا ہونے والی اورپرورش پانے والی شیور مرغی نے پرواز کی نہ ہی چستی پھرتی صحت والی ہوئی۔ شیور مرغی گزرنے والے ہر لمحہ بیماریوں کی طرف دھکیلی جا رہی ہوتی ہے۔ایر کنڈیشنر کی جعلی ٹھنڈک گرمی میں رہنے والے کبھی اچھی صحت چستی پھرتی سے اندھیوں طوفان کا مقابلہ کرنے والے نہیں ہوتے۔ کامیاب زندگیاں ہمیشہ صحت چستی پھرتی کی حسین دلکش لہروں پر دوڑتی ہیں۔سورج کی کرنوں میں الہامی توانائی نورہے، سورج کی کرنیں وجود پر اتر کی وجود کی رگ رگ میں توانائی کا نور نصیب کرتی ہیں۔ برستی کرنوں میں چلتی پھرتی کام کاج کرتی زندگیاں انتہائی صحت مند انتہائی طویل عمر والی ہوتی ہیں۔جن کے بدن میں ہڈیاں ، پہاڑی پتھروں مانند مضبوط، جن کے بدن کے چمڑے پر شیر کے دانت ٹوٹ جاتے۔ جن کی ہمت جرات سے صدیوں قائم رہنے والے پل بنے۔آسمانی بلندیوں کو چھونے والی عمارتیں کھڑی ہوئیں۔ بڑے بڑے دریاوںکے رخ بدلے۔صفحہ ہستی سے ظلم و جبر مٹ جانے کے بعد فتح نصرت کے مینار نصب ہوئے۔ جن کی زندگیوں سے بے بس کمزور زندگیوں کو آزادی جیسی نعمت نصیب ہوئی۔ کرنوں سے وجودصحت مند ہو کر جرات، ہمت، حوصلے والا بن کر آسانی تیزی سے بلندیوں کی طرف چلا جاتا ہے۔ سورج کی کرنیں بدن پر اتر کر بدن کی رگ رگ سے غلیظ ناپاک تکلیف دہ بیماریوں کے جراثیم کونکال کر فضاء￿ میں تحلیل کرتی ہیں۔خوش قسمت اعلیٰ بخت والے کرنوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے اپنے وجود کو کرنوں کے سپرد کرتے ہیں۔کاینات میں پر ہر کلی کرنوں کا نور چوس کر کھل اٹھتی ہے۔ پھول کرنوں کو چوم کر رنگ و خشبو سے لبریز ہوتے ہوئے فضاء￿ کو معطر دلکش کرتے ہیں۔ کھٹے پھل کرنوں کا پاکیزہ نور پی کر شیریں لزیز رس مٹھاس سے بھر جاتے ہیں۔ کھیتوں میں کرنوں کے برسنے سے فصلیں پک کر پاکیزہ خوراک بن جاتی ہیں۔ زندگیوں کا خوبصورت ، خوشگوار مسرتوں سے لبریز دور سورج کی کرنوں کے بدن پر برسنے سے شروع ہو تا ہے۔یہ کہتے ہویے گرمی شہزادی چلنے لگی۔ اس کو دیکھ کر سردی بھی دور چلی گئی۔

ای پیپر دی نیشن