حکیمانہ …حکیم سید محمد محمود سہارن پوری
hakimsaharanpuri@gmail.com
مقام شکر ہے کہ 12 ویں عام انتخابات سے متعلق تمام مراحل خوش اسلوبی سے پائیہ تکمیل تک پہنچے! اکثر مقامات پر طویل ترین رابطہ مہم اور تھکا دینے والی انتخابی مہم نے محبتوں کو پروان چڑھانے کے بجائے چھوٹے چھوٹے اختلاف کو بھی ہوا دی گئی۔ عدم برداشت اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی سیاسی روش بھی جاری رہی۔ دیہی علاقوں میں تو سیاسی اختلافات کو دشمنی کا روپ دھارتے بھی دیکھا گیا’’ بس اب بہت ہوگیا‘‘ انتخابی بخار اتر گیا ہے۔ پاکستان کے بہترین مستقبل اور قومی مفاد کے پیش نظر رواداری، اخوت اور اپنائیت کو اہمیت دیں۔
یہ درست کہ جمہوری ممالک میں اختلاف رائے کو مسابقت اور صحت مندانہ مقابلے میں اختلاف سے فیصلے اور فیصلوں کے اجتماعی فائدے لیئے جاتے ہیں لیکن اختلافات کی آڑ میں دشمنی کے کانٹے بو دینا اور پھر ان کانٹوں کو لمبی مدت تک بوئے رکھنا انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں زیر بھر دیتا ہے۔ گزشتہ چند سالوں سے وطن عزیز کی سیاست ایسے ہی پرخاش راستوں پر چلائی جارہی تھی۔ہم نے سیاسی اختلافات کے زہر آلود اثرات کو خاندانوں کی تقسیم کے لیے استعمال کیا، گھروں میں دوری کی دیواروں کھڑی کروائیں یہی نہیں خونیں رشتوں میں فاصلے پیدا کروائے’’ بس اب بہت ہوگیا ‘‘یہ نفرت آمیز سلسلہ ختم کریں۔ شہر‘ سماج‘ قوم اور ریاست کے بہترین مفاد کے پیش نظر خود کو بہترین پاکستانی اور سچا مسلمان ثابت کریں۔ تین دھائی پہلے تاریخ کے ورق پلٹیں۔ آپ کو تعلیم یافتہ افراد میں اختلاف کرنے اور مخالف رائے کوبرداشت کرنے کی ایسی نادر مثالیں ملیں گی جنہیں سن کر اور پڑھ کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے۔ مجال ہے کہ کبھی ہمارے بزرگوں اور ’’ہمارے بڑوں‘‘ نے گفتگو اور بحث کے دوران عزت وتکریم میں کمی آنے دی ہو۔ افسوس اس بات کا ہے کہ والدین‘ اساتذہ کرام اور مستزاد علماء کرام ومشائخ عظام نے تربیت اور کردار سازی میں اپنے حصے کی شمع فروزاں کرنا چھوڑ دی۔ کبھی بچوں کے لیے ٹیچرز کی شخصیت آئیڈیل ہوا کرتی تھی۔ طالب علم ساری زندگی اساتذہ کرام کو فخریہ انداز میں کاپی کرتے تھے۔ سٹوڈنٹس کی روز مرہ زندگی اور معمولات سے تعلیم وتربیت کی مہکاریں ملا کرتی تھیں اب یہ روایات اور خوشبوئیں قصہ پارینہ بن گئیں۔ اساتذہ کرام کی تربیت میں عدم دلچسپی اور علماء کرام کی معاشرتی اور عوامی زندگی میں ’’عدم موجودگی‘‘ نے مسائل میں مسلسل اضافہ کیا۔ ہم ان مسائل کی وجہ تلاش کریں تو مسئلوں کی وجہ عدم برداشت‘ جھوٹ اور احساس برتری ملے گی۔
وقت آگیا ہے کہ ایوان اقتدار میں داخل ہونے والے سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سیاسی راہنما پاکستان اور قوم کا سوچیں‘ نوجوان نسل اور ملک کے مستقبل کی فکر کریں۔ 12 کروڑ نوجوان کا احساس اور خیال کریں پاکستانی یوتھ کو قومی دھارے میں لائیں۔ ہم اپنی یوتھ کو بے روزگاری اور مہنگائی کے عذاب سے بچا کر قومی خدت کی وہ درخشاں روایت قائم کرسکتے ہیں جس کی مثال چین‘ کوریا اور ملائیشیاء میں موجود ہے۔ خدارا… سو دن اور بڑے کام کے خوشنما نعروں کی بجائے قوم کو ان کے درپیش مسائل سے نجات دلائیں۔ یاد رکھیں تمام مسائل کی جڑ مہنگائی اور بیرزوگاری ہی ہے۔