(نسیم الحق زاہدی)
ہمارے حکمرانوں کے متضاد بیانیوں نے کشمیرکاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا یا ہے۔ کشمیرکی جدو جہد آزادی پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کے پیش نظر اس بات کی ضرورت اور بھی بڑھ چکی ہے کہ پاکستانی قیادت ٹھوس لائحہ عمل طے کرے۔یاد رہے کہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کے بھرپور اظہار کیلئے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1975ء میں اپنے دور حکومت میں یہ پرعزم دن منانے کا آغاز اس نام نہاد معاہدہِ کشمیر کیخلاف ملک گیر ہڑتال کی صورت میں کیا جو اس وقت کے کٹھ پتلی وزیراعلیٰ شیخ عبداللہ نے اندرا گاندھی کے ساتھ ملی بھگت کے تحت مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں پیش کیا تھا بعدازاں باضابطہ طور پر یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ 5 فروری 1990ء کو امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد کی اپیل پر شروع ہوا جسے حکومت نے اپنی کشمیر پالیسی کا حصہ بنایا۔1990ء سے آج 5 فروری 2024ء تک یہ دن ہمیں ان ہزاروں شہداء کی بھی یاد دلاتا ہے جنہیں بھارتی غاصب افواج نے شہید کرنے کے بعد گمنام اجتماعی قبروں میں دفنادیا مگر ان کی صدائے بازگشت آج بھی تحریک آزادی کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصدگزشتہ75 سال سے بھارت کے ظلم، جبر، زیادتی کا شکار کشمیر کے مسلمانوں کو یہ بتانا ہے کہ اپنی جدوجہد آزادی میں وہ تنہا نہیں ہیں پاکستان کی حکومت اور اس کی عوام انکے ساتھ ہیں۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم نے فرمایا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔افسوس!اس شہ رگ کو پی ٹی آئی حکومت نے کاٹ کر رکھ دیا۔بہت شور مچایا جاتا رہا کہ امریکہ سے ٹرافی جیت کر آئے ہیں۔کیا یہی کامیابی تھی کہ شہ رگ ہی دشمن کے حوالے کردی اور اگر جسم سے شہ رگ ہی کاٹ دی جائے تو وہ جسم بے جان ہو جاتا ہے۔خود کو کشمیریوں کا سفیر کہلوانے والے سابق وزیر اعظم عمران خا ن نے امریکی دورے کے موقع پر امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کشمیر کی آزادی اور خود مختاری کا سودا کر دیا۔ جس کا نتیجہ مودی سرکار کی جانب سے5 اگست 2019ء کو شب خون مار کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے اسے بھارت میں ضم کرنے کی صورت میں نکلا۔ چنانچہ جس کے بعد یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت اور ضرورت بڑجاتی ہے۔آج کشمیر پر بھارتی محاصرے کو تقریباًچار سال کا عرصہ گزر گیا ہے مگر کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لرزش پیدا نہیں ہوئی۔ در حقیقت بھارتی جبر کے مذموم ہتھکنڈوں نے تحریک کو مہمیز دے کر آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔جبکہ مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔بھارتی افواج نے افسپا، ٹاڈا یعنی پبلک سیفٹی ایکٹ،آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ سمیت متعدد کالے قوانین کے تحت کشمیریوں کے گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کے قتل عام کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔کشمیری جوان بھارتی عقوبت خانوں میں بند ہیں جن کی رہائی کی تمام امیدیں بھی دم توڑ چکی ہیں۔ کشمیری عوام ایک طویل عرصے سے غاصب اور ظالم بھارتی فوجوں اور دوسری سکیورٹی فورسز کے جبر و تشدد کو برداشت کرتے،ریاستی دہشت گردی کا سامنا کرتے اور متعصب بھارتی لیڈران کے مکر و فریب کا مقابلہ کرتے ہوئے جس صبر و استقامت کے ساتھ اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال موجود نہیں۔ خطہ ارضی پر آزادی کی کوئی تحریک ایسی نہیں کہ جو پون صدی تک جاری رہی ہو اور اس میں لاکھوں کشمیری عوام بالخصوص عفت مآب خواتین نے بھی شہادتوں کے نذرانے پیش کئے ہوں۔ تحریک آزادی کشمیرانسانی تاریخ کی ایسی بے مثال تحریک ہے جس کی پاکستان کے ساتھ الحاق کے حوالے سے منزل بھی متعین ہے۔بلاشبہپاکستان کی آزادی،کشمیر کی آزادی کے بنا 76برسوں سے ادھوری ہے۔المیہ تو یہ ہے کہ کرہ ارض کی تمام نام نہاد ترقی پسند اور سیکولر حکومتیں مہر بلب ہیں۔اور عالمی امن کا نام نہاد ٹھیکیدار اقوام متحدہ بھی چپ سادھے ہوئے ہے۔بھارت کی نام نہاد جمہوریت سے یہ نہیں پوچھا جا رہا کہ وہ کس بنیاد پرکشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کوبے دردی سے پامال کر رہا ہے۔ لہذامسئلہ کشمیر کا حل اب عالمی برادری کی بقا ء کے لئے ناگزیر ہوگیا ہے۔بھارت نے مقبوضہ وادی کوعقوبت خانے میں تبدیل کر کے دہشت گردی کا جو سلسلہ شروع کیا اس سے اقلیتوں کے ساتھ اب مقامی باشندے بھی محفوظ نہیں رہے۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کیلئے گھناؤنے منصوبے کے تحت ہزاروں ہندووئں کو یہاں کامستقل رہائشی بنایا جا رہا ہے کیونکہ اس سے ناصرف انہیں ووٹ کا حق حاصل ہوگابلکہ وہ بآسانی ملازمتیں بھی حاصل کرسکیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ 32 برس کے دوران بھارتی افواج نے تقریباً2لاکھ کے لگ بھگ کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں سے10ہزارسے زائد افراد کو دوران حراست ماورائے عدالت قتل کیا گیا،23ہزار خواتین بیوہ ہوئیں جبکہ مجموعی طورپر ڈیڑھ لاکھ بچے یتیم ہوئے،10ہزار سے زائد کشمیری لاپتہ ہوئے،چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے 15 ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی جبکہ ہزاروں نوجوان پیلٹ گنز کا نشانہ بنے، سرچ آپریشن کے دوران2 لاکھ سے زائدعام شہریوں کو حراست میں لیا گیا،رہائشی مکانوں کو مسمار کر اپنے توسیعی منصوبوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی حالت دگرگوں، کاشتکاری سے لے کر کاروبار تک سب کچھ تنزلی کا شکار ہے، املاک کے نقصانات کا تخمینہ ایک ارب سے زائد ہے، انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت تاحال پوری طرح بحال نہیں ہو سکی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ 1948ء میں خودمختار ریاست جموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے اس کے غالب حصے پر ناجائز تسلط جمانے کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا ہی تھا۔ پاکستان کی سلامتی کیخلاف یہ سارے بھارتی عزائم اس کے پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے ساتھ ہی جڑے ہوئے ہیں اور اس کے حل ہونے سے ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا دارومدار ہے۔کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی درحقیقت پاکستان کی تکمیل و استحکام کیلئے ہے جس کا دامے،درمے،قدمے،سخنے ہی نہیں عملی ساتھ دینا بھی پاکستانی حکمرانوں اور عوام کی بنیادی اخلاقی ذمہ داری ہے چنانچہ ہر سال حکومت کے زیراہتمام یوم یکجہتی کشمیر منا کر غاصب بھارت کو یہ ٹھوس پیغام دیا جاتا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کو اب چاہئے کہ بھارتی افواج کے مظالم پر اظہار مذمت کرتے ہوئے خاموش تماشائی بننے کے بجائے حق خود اردیت دلانے کیلئے فوری مؤثر اقدامات کرے۔