”سانسیں یا سسکیاں کربلا یا کراچی“

نواز خان میرانی...........
یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ دراصل یہ تجربات، واقعات کی مماثلت، وقوع پذیر ہونے والے تغیر و تبدل کے نتائج، سابقہ اور حالیہ کرداروں کی یکجائی اتنی ملتی جلتی ہے کہ ہمیں لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ایسے ہی یوم عاشور پہ دنیا نے دیکھا کہ ماضی کے یزیدلعین نے جو خون کی ہولی اہل بیت کے ساتھ شمر جیسے جہنمی کردار کے ہاتھوں کھیلی جو پانی بند کرکے شروع اور پھر خیمے جلا کر شام غریباں پر منتج ہوئی۔
کرب و بلا کی طرح دریائے فرات کا پانی اہل بیت پر اور کراچی کے عوام کا سمندر کی موجودگی کے باوجود پیاسا رہنا اور عاشورہ کا اختتام دکانیں جلا کر اور راکھ کے ڈھیر میں بدل کر نئی کربلا کی داستان رقم کر دی گئی۔ اگر سروں میں سودا سما جائے تو لوگ چشموں، جھرنوں، ساگروں، ندی نالوں اور دریاﺅں کے دیس سوات میں بھی دیس نکالا اور دربدر کرکے پیاسے رکھے جاتے ہیں۔ ابتدائے آفرینش سے آج تک زمانے اور تاریخ کی بساط پر جتنی بھی بازیاں لگائی جاتی گئیں اور جو بھی کھیل کھیلے گئے وہ سب بالآخر اپنے حقیقی منطقی انجام تک پہنچتے ہوئے نظر آئے۔ کچھ وقت تو اپنے سیاق و سباق کے ساتھ نظر آنے والے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بے دم ہو کر تاریخ کا قبرستان بن گئے۔ ان کے قصے، فلسفے، نظریئے سب کچھ اوراق پارینہ بن جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا تب ہوتا ہے کہ جب عوام اور رعایا کو سکون، چین، آرام اور امن دینے والے سکھ کی بجائے دکھ اور روشنی کی بجائے آلاﺅ اور بھڑکاﺅ کا کھیل کھیلنا شروع کر دیں تو پھر خیموں اور خاصوں سے لے کر عاموں تک کی آہوں اور سانسوں کو سسکیوں میں بدلتے کتنی دیر لگتی ہے۔ کربلا کے خیموں اور کراچی کی دکانوں کو خاکستر کرنے والا تو ایک ہی یزید ہے۔
تاریخ پہ نظر رکھنے والے یہ بھی تو کہتے ہیں کہ اللہ کے ولیوں، فقیروں، درویشوں کو نہ کوئی حزن ہوتا ہے اور نہ ملال، قرآن کی تصدیق تاریخ کرتی ہے کہ واقعی صبر، برداشت، بے خوفی، معاملات اور حالات سے نبٹنے کا ادراک خیال، سوچ اور عمل میں توانائی و توازن اور یہ جزوایمان کہ اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں، مگر کیا وجہ ہے کہ اللہ کے ولی آغاز محرم سے ہی بے کلی و بے قراری اور بے چینی کی شدید کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں، مشیت ایزدی پہ کار بند اس واقعے پہ کیوں دل برداشتہ و جاں سوختہ ہو جاتے ہیں حالانکہ یہی بے مثال لوگ نہ تو اپنی آل، نہ مال، نہ اولاد کے انتقال و چھن جانے پر پرملال ہوتے ہیں کیونکہ ان کے قلوب و اذہان پہ یہ نقش ہے اور اس کے نقوش ان جیسے نفوس پہ انمٹ اور تاابد قائم رہیں گے۔ کہ محب کا محبوب تو تمام مسلمانوں کو اپنی جان و مال اور اپنی اولاد سے زیادہ پیارا اور پارساﺅں کے لےے بھی قابل پابوس ہے۔ اسی لےے وہ اہل بیت اور پنج تن پاک کے لےے وہ بے دام غلام ابن غلام ہیں اور یہ کیفیت روز نزول سے روز نشور تک قائم رہے گی۔ اسلام میں وہ ایمان معتبر نہیں جس کی بنیاد حب رسول پر نہ ہو، محبت محض ظاہری اور رسمی مطلوب نہیں بلکہ ہر مسلمان سے مطلوب و مقصود ہے۔ جو تمام محبتوں پر غالب آجائے جس کے مقابل محبوب ترین تعلقات کی بھی کوئی قدر و قیمت نہ ہو۔ جس کے لےے دنیا کی ہر چیز کو چھوڑا جاسکے لیکن خود اس کو کسی قیمت پر نہ چھوڑا جائے۔
یہ کیفیت تو اللہ کے خاص بندوں کی ہوتی ہے جو کربلا میں ڈھائے جانے والے اس ظلم کو جو کنبہ رسول پہ ڈھایا گیا، فراموش کرنے کو تیار نہیں۔
مگر تعجب ہے کہ چودہ سو سال بعد امت رسول پہ کراچی میں ڈھایا جانے والا یوم عاشور پہ ظلم عام لوگ بھی بھول جانے اور فراموش کرنے پہ کسی صورت آمادہ نہیں۔ مختلف دلیلیں، تاولیلیں، مذاکرے، مباحثے، ہڑتالیں،عدو کی چالیں نہ تو پاکستانیوں کو مطمئن کر سکتی ہیں نہ مداوا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ نہ تو پاکستان بنانے والے قائداعظمؒ کی پراسرار موت کو، نہ ہی پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتل کو، نہ ہی ایوب خان کے زوال کو، نہ یحییٰ خان کی شاندار رسومات انتقال کو، نہ ہی ضیاالحق کے حادثے کے وقت پڑنے والے جرنیلوں کے وبال کو، نہ بےنظیر کی شہادت بے مثال کو ، نہ ہی نوازشریف کے وطن بدری اور لاہور ائیرپورٹ والے حال کو، نہ مشرف و شوکت عزیز کے مال کو سفید و کالادھن ثابت کرنے کی کسی تحقیق و جستجو کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔
آثار بتاتے ہیں، تجربے جتلاتے ہیں، حاکم فرماتے ہیں کہ ہمیں قاتلوں کا پتہ ہے، مگر ہمیں بھی اتنا پتا ہے کہ ایک قانون قدرت پوری دنیا کو چلانے والے کا بھی موجود ہے صرف ایک ملک گو وہ بھی اللہ کے سہارے ہی چل رہا ہے، بظاہر چلانے والے جان لیں کہ خون ناحق چاہے حسینؓ کا ہو، چاہے بےنظیر کا ہو، چاہے اکبربگٹی کا یا جامع حفصہ کی معصوم بچیوں کا یا کراچی کے عوام کے قہراً قتل کرکے قہقہے مارنے والوں کا خدا قاتل بے نقاب کرکے چھوڑے گا، جیسے آدمؑ کے بیٹے کا ہوا تھا، چاہے تو کوے سے کرا دے یا کنجشک یا کسی کوبہ کو پھرنے والے بظاہر بے حال کنگال سے!!! جاہ و حشمت اور کروفر کو زندگانی کا حسن سمجھنے والے
حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ

ای پیپر دی نیشن