میمو کی تیاری ، تحریر اور مائیک مولن کو حوالگی میں کوئی کردار نہیں۔ معاملے میں غلط طور پر پھنسایا گیا ہے۔ حسین حقانی

Jan 09, 2012 | 18:24

سفیر یاؤ جنگ
میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات کے لیے قائم عدالتی کمیشن کا اجلاس جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی زیر صدارت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوا۔ امریکہ میں سابق پاکستانی سفیرحسین حقانی نے کمیشن کے سامنے اپنا ابتدائی بیان ریکارڈ کرانے سے قبل سچ بولنے کی قسم کھائی۔ ان کا کہنا تھا کہ میمو معاملے میں انہیں غلط طورپر ملوث کیا گیا ہے ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں اوروہ میمو کی تیاری، تحریر اور مائیک مولن کو حوالگی میں بھی ملوث نہیں۔حسین حقانی کا کہنا تھاکہ وہ نہیں جانتےکہ میمو کہاں سے آیا اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں۔ سوائے میڈیا کے میمو کی حیثیت کے حوالے سے انہیں علم نہیں ہے۔حسین حقانی نے بتایا کہ سولہ دسمبر دوہزار گیارہ کو انہوں نے خط کے ذریعے صدر کو استعفیٰ بھجوایا تھا جسے بائیس دسمبر کو منظور کرلیا گیا۔ حسین حقانی نے صدر کو لکھے گئے خط اور استعفے کی منظوری کے نوٹیفکیشن کی کاپی بھی کمیشن کے سامنے پیش کی۔ سابق پاکستانی سفیر کا کہناتھا کہ وہ ملک سے غداری کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ نواز شریف دور میں معاون خصوصی جبکہ پی پی کے سابق دور میں میڈیا ایڈوائزر رہ چکے ہیں۔ حکومت پاکستان نے دوہزار گیارہ میں بہترین سفارتی خدمات پرانہیں ایوارڈ بھی دیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر حسین حقانی نے اپنا عارضی پتہ وزیر اعظم ہاؤس لکھوایا۔ اس سے قبل کمیشن کے استفسار پر حسین حقانی کے وکیل زاہد بخاری نےکہا کہ حسین حقانی نے بلیک بیری کمپنی کو تعاون سے انکار نہیں کیا تاہم اس سے قبل منصور اعجاز کو پیغامات سےسابق پاکستانی سفیر کا تعلق ثابت کرنا ہوگا۔ حسین حقانی نے میسجنگ کے حوالے سے اپنا حق راز داری چھوڑنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت کے تابع ہیں اور اجازت کے بغیر ڈیٹا نہیں دے سکتے۔ زاہد بخاری کی استدعا پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو حسین حقانی کو اضافی سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ منصوراعجاز کے وکیل نے کہا کہ ان کے مؤکل کو پاکستانی حکام ویزہ نہیں دے رہے جس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ منصور اعجاز گواہ ہیں اورحکومت کو انہیں سہولت دینے کا کہا گیا تھا پھر ویزہ کیوں نہیں جاری کیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ منصوراعجاز کو گھر بیٹھے ویزہ نہیں بھیج سکتے اس کے لیے انہیں اپلائی کرنا ہوگا۔ اکرم شیخ نے دلائل دیئے کہ منصور اعجاز نے برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں ویزے کی درخواست دی ہے، دونوں ممالک میں پاکستانی حکام نے انہیں پندرہ روز کے لئے پاسپورٹ چھوڑنے کا کہا ہے۔کمیشن نے سیکرٹری داخلہ کو منصوراعجاز کو فوری طور پر ویزہ جاری کرنے کا حکم دیا۔ سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ وہ وزارت قانون کی مشاورت سے ویزہ جاری کریں گے جس پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کمیشن نے کہا کہ آپ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لندن اور برلن میں پاکستانی سفارتخانوں کو منصور اعجاز کی درخواست ملتے ہی ویزہ جاری کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ ان کے مؤکل کو ڈرانے کے لیے جھوٹے مقدمات قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ منصور اعجاز کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔صرف سیشن کورٹ میں مقدمے کے اندراج کے لیے ایک درخواست دائر کی گئی ہے۔ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ کمیشن اگر بلیک بیری ڈیٹا جلد منگوالے تو منصور اعجاز سولہ جنوری کو پاکستان آسکتے ہیں تاہم اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ انہیں واپس جانے دیا جائے گا۔ کارروائی کے آغاز پر کمیشن کو آرمی چیف کے پیش نہ ہونے کے حوالے سے تحریری طور پر آگاہ کیا گیا۔ تحریری جواب بریگیڈئیر نوبہار کی جانب سے پیش کیا گیا جس میں بتایا گیا ہے کہ آرمی چیف چین کے طے شدہ دورے پر ہیں جس کی وجہ سے وہ کمیشن کےسامنے پیش نہیں ہوسکتے۔
مزیدخبریں