شیخ الاسلام کے لانگ مارچ میں اب فاصلہ ہی کتنا رہ گیا ہے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے انکی متعینہ ڈیڈلائن کا کل آخری روز ہے۔ ابھی تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ انہوں نے انتخابی اصلاحات کا تقاضہ کس سے کیا ہے۔ بہرحال کل کا دن پہلے دنوں کی طرح گزریگا تو علامہ صاحب کے ”دمادم مست قلندر“ کا آغاز ہوجائیگا جس نے 14 جنوری کو شاہراہ دستور اسلام آباد پر پڑاﺅ ڈالنا ہے۔ ابھی تک تو علامہ صاحب کے عزائم اٹل ہیں اور میاں خورشید قصوری کی بیان کردہ انکی اناپرستی کا خیال کیا جائے تو علامہ صاحب اب اپنے عزم و ارادے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ پھر بھی یہ کیوں گمان گزر رہا ہے کہ علامہ صاحب کے دمادم مست قلندر کی نوبت نہیں آئیگی، اس گمان کا سبب صرف یہ مشاہدہ بن رہا ہے کہ علامہ صاحب کی ملک واپسی اور انکے 23 دسمبر والے مینار پاکستان کے جلسے کی متعینہ شیڈول سے تین ہفتے پہلے جس دھوم دھڑکے کے ساتھ قارون کا خزانہ لٹانے والے اخراجات پرمبنی تشہیری مہم کا اندرونی اور بیرونی میڈیا پر اہتمام کیا گیا اور علامہ صاحب کے قدِآدم ہورڈنگز اور بینر راتوں رات تیار کرکے صرف لاہور ہی نہیں، ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں سجائے گئے، اسکا عشر عشیر بھی لانگ مارچ کی پبلسٹی کیلئے نظر نہیں آرہا، ماسوائے اسکے کہ علامہ صاحب نے لاہور کی ایک تقریب میں لانگ مارچ کے اخراجات کیلئے خواتین کے طلائی زیورات اتروانے کا اہتمام کیا اور پھر یہ ایکسرسائز ایم کیو ایم متحدہ کی نائن زیرو والے جلسے میں دہرائی گئی‘ لانگ مارچ کے انتظامات اور تشہیری مہم کے اخراجات کا کوئی اور اہتمام ہوتا کہیں نظر نہیں آیا۔ ویسے تو علامہ صاحب دعویٰ کرچکے ہیں کہ وہ مینار پاکستان جیسے مزید ایک سو جلسوں کا اہتمام ادارہ منہاج القرآن کی مالی معاونت کے بغیر بھی کر سکتے ہیں اس لئے میرے جیسے کم فہموں کو یہ سوچ رکھناچاہئے کہ علامہ صاحب کو دس بارہ لاکھ کے نفوس کے لانگ مارچ اور ایک ماہ کے دھرنے کیلئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کا دیا انکے پاس پہلے ہی بہت کچھ ہے، مال و منال کی حرص و ہوس تو انکے قریب بھی نہیں پھٹکی سو جو کچھ بھی اللہ نے انکو عطا کیا ہے، وہ سب ”اَن چُھوا“ انکے پاس محفوظ پڑا ہے جسے ایف بی آر والے بھی چھونے کی جسارت نہیں کرسکتے کیونکہ وہ ایسی کوئی حرکت کریں گے تو کھڑے کھڑے پتھر کے ہوجائینگے۔ سو اللہ کی رضا سے دستیاب دھن دولت انہوں نے سمیٹ کے جنت میں تھوڑا لے جانی ہے، لانگ مارچ کااہتمام اللہ کے ودیعت کردہ اس مال و منال کے جائز استعمال کیلئے ہی تو کیا گیا ہے۔ شیخ الاسلام دُھن اور گُن کے پکے ہیں۔ بدخواہوں کی باچھیں اگر اس تصور کے تحت کِھل رہی ہیں کہ علامہ صاحب لانگ مارچ اور دھرنے کیلئے کوئی خرچہ نہیں کرارہے کہ وہ اسکے انعقاد و قیام کیلئے سنجیدہ نہیں ہیں تو انہیں خاطر جمع رکھنی چاہئے اور اپنی خیر منانی چاہئے کیونکہ علامہ صاحب تو اپنے کشف و کرامات کے زور پر پورے ملک کی آبادی کو لانگ مارچ میں تبدیل کرسکتے ہیں اور کسی نے چیلنج کردیا تو وہ دوسری شہریت دینے والے اپنے ملک کینیڈا کی آبادی بھی چٹکی بجا کر لانگ مارچ کا حصہ بناسکتے ہیں۔ وہ تو پہلے ہی اس فلسفے کے قائل ہیں کہ ”چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو“ آج زمانہ انکے ساتھ چل رہا ہے، وہ پہلو بدلتے ہیں تو زمانہ بھی انکے ساتھ پہلو بدلتا نظر آتا ہے۔ وہ کسی بات پر خفگی کا اظہار کرتے ہیں تو پورے زمانے کے تیور بدل جاتے ہیں اور انکے دہن مبارک پر کامرانیوں کے تصور سے پھوٹنے والی ہلکی سی مسکراہٹ چٹکی بھرتی ہے تو پورا زمانہ کھلکھلاتا نظر آتا ہے۔ فیض نے ایسی ہی کسی نابغہ روزگار ہستی کی شان میں قصیدہ کہتے ہوئے نقشہ باندھا تھا کہرنگ پیراہن کا، خوشبو زلف لہرانے کا نامموسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نامارے اتنی باصفا ہستی کے کردار و گفتار پر گرہیں لگانا، تجسس کی آمیزش کرنا، تشکیک کی ملمع کاری کرنا اور خیال آرائی کے ٹانکے لگانا، توبہ توبہ، خدا خدا کیجئے۔مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خاں جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1999ءکے شب خون سے وابستہ ایک واقعہ اپنے مخصوص مترنم لہجے میں سنایا کرتے تھے جس کا بنیادی کردار شیخ الاسلام ہی تھے۔ وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی آشیرباد سے پاکستان عوامی اتحاد کے ایک سال کیلئے کنوینئر بنائے گئے اور پھر اتحاد سے باہر نکلنے کی دھمکی دیکر انہوں نے اپنی کنوینئر شپ کیلئے مزید ایک سال حاصل کرلیا۔ میاں نوازشریف کی حکومت کیخلاف مشرف کے شب خون والا دن انکی کنوینئر شپ کے دوران ہی آیا چنانچہ اس ایکشن کی اطلاع پاتے ہی علامہ صاحب مستقبل کی حکمت عملی طے کرنے نوابزادہ صاحب کے پاس -32 نکلسن روڈ جاپہنچے۔ اس واقعہ کے راوی خود نواب صاحب ہیں جن کے بقول عوامی اتحاد کی ہنگامی میٹنگ کے دوران علامہ طاہر القادری اچانک اٹھ کر باہر چلے گئے اور پھر کچھ ہی دیر بعد واپس آگئے۔ میرے استفسار پر انہوں نے انکشاف کیا کہ جنرل مشرف نے ان سے موبائل فون پر رابطہ کیا ہے اور اپنے اصلاحاتی ایجنڈہ پر ان سے تعاون طلب کیا ہے۔ نوابزادہ صاحب کے بقول انہوں نے علامہ صاحب سے پوچھا کہ انکا مشرف سے رابطہ کیسے ہوگیا جبکہ جرنیلی شب خون کے وقت تو موبائل فون سروس اور لینڈ لائین منقطع کردی گئی تھی جو ابھی تک بند ہے، یقیناً انکی کشف و کرامات ہی انکے مشرف سے رابطے کا ذریعہ بنی ہوں گی۔ سو اب کوئی مائی کا لاگ انکے لانگ مارچ میں سدِّراہ ہوسکتا ہے؟ پھر کیوں دل ہے کہ مانتا نہیں۔ کیوں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ الاسلام کے دمادم مست قلندر کی نوبت نہیں آئیگی۔ رحمان ملک نے اپنے کشف کی بنیاد پر یہ کہہ کر علامہ صاحب کے پاﺅں کے نیچے سے زمین سرکانے کی کوشش کی کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاعات موجود ہیں، لانگ مارچ میں طالبان کا خودکش حملہ ہوگا۔ انہوں نے تھرتھلی پیدا کرنیوالے اس جملے کے ذریعے علامہ صاحب کو گزشتہ رات دورانِ ملاقات بھی لرزانے کی کوشش کی ہوگی مگر آج تحریک طالبان نے لرزانے کے معاملہ میں رحمان ملک کو بھی مات دیدی۔ پہلے تو تحریک طالبان کے ترجمان نے رحمان ملک کے خودکش حملے والے دعوے کی تردید کی اور پھر علامہ صاحب کیلئے رحمان ملک سے بھی بڑا دھماکہ یہ کہہ کر کیا کہ ہم کارروائی پہلے کرتے ہیں اور اسکی ذمہ داری بعد میں قبول کرتے ہیں، ”لو کرلو گلّ“ رحمان ملک تو رحمان ملک‘ اب اس آئی افتاد کو کون ٹالے گا، مرزا غالب کہہ گئے ہیں کہتاب لاتے ہی بنے گی غالبواقعہ سخت ہے اور جان عزیزبے شک حضرت علامہ صاحب اپنی انا کے پکے ہیں مگر جان بچانا بھی تو فرض ہے اور یہاں تو لاکھوں انسانوں کی جانوں کا سوال ہے بابا۔ سو میرا کشف شیخ الاسلام کے لانگ مارچ اور دھرنے کو کہیں دور دور تک بھی نہیں دیکھ رہا کیونکہ جیتنے کے خسارے سے انا کی ہار ہی بھلیہارنے میں اک انا کی بات تھیجیت جانے میں خسارہ اور ہے
”واقعہ سخت ہے اور جان عزیز“
Jan 09, 2013