مسلم لیگ (ن) نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔ ”خصوصی“ عدالت بھی بنا دی گئی ہے مگر چند سوالات کا ہر کسی کے ذہن میں ابھرنا فطری ہے۔ مشرف کے خلاف آرٹیکل (6) کارآمد ہے۔ یہ سب کارروائی آئین اور قانون کے تحت ہو رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب کہتے ہیں کہ اس مقدمے کا مدعی پاکستان اور آئین ہے۔ سوال یہ ہے۔ ن لیگ کی حکومت سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت پانچ سال برسراقتدار رہی ہے کیا وہ پاکستانی آئین کے مخالف تھے؟ انہیں یہ مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی ضرورت کیوں نہ پیش آئی؟ یا پھر کیا آرٹیکل (6) میں یہ بھی درج ہے کہ آدمی کا جنرل جس سیاسی پارٹی کی حکومت پر قبضہ کرے گا وہ ہی پارٹی جب بھی حکومت میں آئے گی اس جنرل کے خلاف غداری کا مقدمہ چلائے گی۔ اسلام اور آئین عدل کے داعی ہیں۔ یہ کہاں درج ہے کہ ایک ہی جرم کو چار فرد کریں تو تین کا ذکر بھی نہ کیا جائے اور صرف ایک کو پکڑ لیا جائے۔ سابق صدر زرداری آج جسے ”بلا“ کہہ رہے ہیں۔ اس ”بلے“ کو انہوں نے خود پروٹوکول کے ساتھ باعزت یہاں سے باہر جانے دیا تھا۔ زرداری نے مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ کیوں نہ درج کرایا؟ پاکستانی آئین تو ایک ہی ہے جس کو مشرف نے توڑا تھا۔ خواجہ ”لوڈشیڈنگ“ اپنی وزارت میں تو ابتدا میں ہی ناکام ہو چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب شدید سردی میں بھی بجلی کی دس بارہ گھنٹے لوڈشیڈنگ جاری ہے مگر موصوف مشرف کو ”شیر بنیں شیر“ کی ترغیب دے رہے ہیں۔ اکرم شیخ ایڈووکیٹ بھی بابر اعوان کی طرح قانون سے زیادہ اپنی پارٹی کے وفادار دکھائی دے رہے ہیں لہٰذا وہ مرتے دم تک غداری کا مقدمہ لڑنے کے ”دعویدار“ ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار نے خود ہی فیصلہ صادر فرما دیا ہے کہ غداری ناقابل ضمانت جرم ہے۔ حالانکہ قانون کی تھوڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص یہ بخوبی جانتا ہے کہ FIR درج کرانے میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کا سارا فائدہ ملزم کو ملتا ہے اب اگر عدلیہ یہ کہے کہ پہلے تو مشرف کا عہد تھا لیکن سابقہ جمہوری زرداری دور میں یہ مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا گیا تو؟ بہرحال یہ سب حکومتی ڈرامے بازیاں ہیں۔ 9 محرم کو راولپنڈی میں ایک طرف فرقہ وارانہ کشیدگی ہوئی دوسری طرف وزیر داخلہ نے مشرف کے خلاف مقدمے کا ”شوشا“ چھوڑ دیا تھا۔ ن لیگ معذرت کے ساتھ خود ایک ڈکٹیٹر جنرل ضیاءکی پیداوار ہے۔ ایوب اور یحییٰ سمیت جنرل ضیاءکے خلاف بھی غداری کا مقدمہ درج کرایا جائے۔ ورنہ یار لوگ اسے ن لیگ کی انتقامی کارروائی ہی کہیں گے۔ مشرف پھر بھی چلا جائے گا۔ حکومت کو بھی علم ہے گھر سے عدالت کے لئے نکلنا اور آرمی ہسپتال میں داخل ہو جانا حکومت کے سب علم میں ہے۔ یہ اور اس قسم کے ڈرامے اصل مسائل کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ 7 ماہ قبل ملکی حالات کی وجہ سے وزیراعظم صاحب کی ”مسکراہٹ“ مفقود ہو گئی تھی۔ مسئلہ کو ابھی تک ایک بھی حل نہیں ہوا مگر وزیراعظم صاحب مسکراہٹ کے علاوہ ”جگتیں“ بھی کرنے لگے ہیں۔ چند دن قبل ایک تقریب میں وزیر ”مال“ اسحاق ڈار کو کہتے ہیں کہ ڈار صاحب ڈالر کو 52 روپے تک لے آئیے۔ یہ کیسا ”شریفانہ“ مذاق تھا۔ ملک میں بجلی نہیں ہے گیس نہیں ہے۔ بیروزگاری اور مہنگائی کا راج ہے۔ وزیراعظم صاحب کو پتہ ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ ایک تقریب میں وزیراعظم صاحب لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی نوید سناتے ہیں مگر چار ہی دن بعد دس دس گھنٹے کی لوڈشیڈنگ شروع ہو جاتی ہے۔ حکومت کی کس قدر ”سنجید“ کارکردگی ہے۔ مشرف کے مقدمے میں تو وزیراعظم صاحب قانون کی نظروں میں سب کے برابر ہونے کا درس دے رہے ہیں۔ تو وزیراعظم صاحب ذرا وضاحت فرما دیں کہ اسی پاکستانی قانون نے جن ساڑھے آٹھ ہزار جیلوں میں بند قیدیوں کو سزائے موت سنا رکھی ہے۔ ان کے بارے آپکی حکومت کن ”مفادات“ کی بنا پر خاموش ہے۔ انہی عدالتوں نے اسی پاکستانی قانون کے مطابق انہیں سزائیں دی تھیں۔ ان پر تو آپ عمل کرنے سے کترا رہے ہیں مگر مشرف کے بارے پاکستانی قانون آپ آناً فاناً حرکت میں لانا چاہ رہے ہیں۔ فرض کریں اگر ن لیگ ”خصوصی“ عدالت سے سزائے موت دلانے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے تو مشرف پھر بھی بچ جائیں گے۔ کیونکہ اسی حکومت نے یورپی یونین اور طالبان کے خوف سے سزائے موت کے قیدیوں کو سزا نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ خواجہ ”لوڈشیڈنگ“ وزیر ”پروپیگنڈہ“ پرویز رشید اور وزیر داخلہ مناسب ہو گا کہ اپنے اپنے محکموں کی ذمہ داریوں جو انہیں سونپی گئی ہیں ان کی طرف توجہ دیں عوام کے مسائل حل کریں۔ صرف مشرف کی غداری کی رٹ لگا لگا کر عوامی مسائل سے آنکھیں چرا کر خود کو بھی آئین اور عوام کی نظر میں بے توقیر نہ کریں۔