جی این بھٹ
لاہور میں گذشتہ روز ایک اور گھریلو ملازمہ کو اسکے مالکان نے بے دردی سے قتل کردیا۔اس طرح دو روز میں یہ دوسری نوعمر گھریلو ملازمہ کا قتل ہے۔ عرصہ دراز سے ہمارے ملک میں شہروں یا دیہات نوعمر بچوں دفتروں‘ فیکٹریوں‘ کھیتوں‘ بھٹوں میں نوعمر بچوں اور بچیوں سے محنت مزدوری کرائی جا رہی ہے کوئی قانون کوئی این جی او اور کوئی سرکاری ادارے بڑے بڑے بلند بانگ دعوﺅں کے باوجود اس بے رحمانہ طریقہ غلامی کو بند نہیں کرا سکا بلکہ اس ”چائلڈ لیبر“ کے خلاف احتجاج کرنے اور زوردار بیانات داغنے والوں کے ہاں خود بھی چائلڈ لیبر کام کر رہی ہے۔
حکومت پنجاب نے کم عمر بچوں کو سکول داخل کرانے کی مہم چلائی کروڑوں روپے کے اشتہارات شائع کیے مگر نتیجہ کیا نکلا آج بھی پنجاب سمیت ملک بھر میں نوعمر بچے محنت مزدوری کرکے اپنے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ دکانوں اور گھروں میں تو ان کم سن بچے اور بچیوں کی حالت نہایت بہتر ہے۔میرا اپنا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان 8 سے 12 سال تک کی بچیوں کے بال تک کاٹ کر چھوٹے رکھے جاتے ہیں۔ سخت سردی ہویا گرمی نامناسب لباس میں سارے گھر کا اور دکان کا کام صفائی، دھلائی انہی سے کرائی جاتی ہیں علاوہ ازیںچھوٹے بچوں کو کھلانا اور سنبھالنا بھی ان کے ذمہ ہوتا ہے۔اب جو بچے یا بچیاں خود کھیلنے کے عمر کی ہوں ان سے آیا گیری کا کام لینا کہاں کا انصاف ہے کہاں کا قانون ہے۔پوری دنیا میں بچے یا بزرگ کو سنبھالنا آیا کا کام ہوتا ہے اسے نرس کہہ لیں ۔ ماما کہہ لیں یا خالہ کہیں ہر معاشرے میں اسکا نام علیحدہ ہے۔ دھلائی اور صفائی کا کام علیحدہ ہوتا ہے اس کیلئے علیحدہ خاتون یا مرد رکھا جا سکتا ہے۔ اس طرح مالی کا ڈرائیور کا خانساماں کا کام علیحدہ ہوتا ہے یہ سب تنخواہ دار ملازم کہلاتے ہیں اور انہیں قانون اور قاعدے کے مطابق تنخواہ اور چھٹی ملتی ہے۔اس کے برعکس ہمارے ملک میں اندھا قانون ہے سماج میں اندھے لوگ بستے ہیں۔ یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے طاقت ور اور صاحب حیثیت لوگ اپنے اثرورسوخ کا بے جا استعمال کرتے ہیں کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں روکنے والا نہیں۔مہنگائی اور غربت کے مارے لوگ اپنے پیٹ کا ایندھن بھرنے کیلئے زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے اپنے کم سن لخت جگر کو آنکھوں کے نور کو دل کے ٹکڑوں کو ان ظالموں کے سپرد کرکے چند روپے حاصل کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ ان ظالم پیسے والوں کے پاس دل اور ضمیر نام کی کوئی شے نہیں ہوتی یہ لوگ چند ہزار روپے خیرات کی شکل میں دے کر ان بچوں کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ کون کہتا ہے غلامی ختم ہوچکی اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے تو اسے دکانوں، گھروں اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے ان بچوں کی حالت زار دکھائی جائے جن کو مالکان کے ہاتھوں مار پیٹ ، جنسی زیادتی اور قلیل تنخواہ اور کم خوراک ملتی ہے۔میڈیکل اور علاج کا تو تصور ہی نہ کریں۔ یہ سب یورپ اور ترقی یافتہ معاشرے کے چونچلے ہیں۔ ہمارے جیسے بے حس معاشرے میں لڑکیوں اور لڑکوں کو جس وحشیانہ طریقہ سے استعمال کیاجاتا ہے اسکا ایک رخ ہمیں گزشتہ تین دنوں میں دیکھنے کو ملا ہے چند روپوں کی خاطر 6یا 8 سالہ بچی کو بھوکا پیاسا سردی میں باندھ کر تشدد کا اتنا نشانہ بنایا گیا کہ اسکا کمزور پھول جیسا نازک بدن زخموں سے چور چور ہوگیا اور وہ روتی پیٹتی بلکتی سسکتی لیتی رہی مگر ایک دولت مند ماں نام کی عورت پر اس کے گھر والوں پر جو خود بھی بے حس ہو چکے ہیں کوئی اثر نہ ہوا شاید وہ اپنے علاوہ کسی کو انسان ہی نہیں سمجھتے۔ ورنہ اگر کہیں سے رات کو کسی کتے کے پلے یا بلی کے بچے کی رونے کی آواز بھی آئے تو اہل دل تڑپ اٹھتے ہیں انکی نیند اڑ جاتی ہے مگر افسوس اس 8 سالہ بچی کے دم توڑنے تک کوئی انسان بیدار نہ ہوا اور 15 سالہ خادمہ کے ساتھ مالکان کی زیادتی اور تشدد کے اس مظلوم اور بے گناہ بچی کی اذیت ناک موت پر بھی اس کے مالکان کے گھر کی باقی خواتین کے کلیجے نہ پھٹے۔ انہوں نے اس ظلم و زیادتی سے اپنے بچوں کو کیوں نہیں روکا۔کیا وہ بھول گئیں کہ وہ بھی عورتیں ہیں ویسے ہی کمزور اور ناتواں کانچ کی بنی ہوئی عزت کی حامل جیسی یہ کم عمر ملازمہ تھی۔ کیا یہ دو خاک نشینوں کا خون بھی رزق خاک ہوگا جیسا پہلے بھی ہوتا آیا ہے یا ہماری حکومت اور عدلیہ اب سختی سے ” چائلڈ لیبر“ کے قانون پر عمل کرائے گی ایسے نازک بچے اور بچیوں کو المناک اور اذیت زندگی اور موت کے شکنجے سے نکال کر ایک محفوظ اور پُرسکون مستقبل فراہم کریگی اور انسان نما بھیڑیوں کو ان بچے بچیوں کے قتل پر عبرتناک انجام سے دوچار کرے گی تاکہ دوبارہ ایسے نہ ہو۔ یہ تو شہروں میں کام کرنے والے بچے اور بچیوں کی حالت ہے ذ را دیہی علاقوں میں جاکر دیکھیں تو ان گنت ہزاروں خون میں لتھڑی کہانیاں سامنے آئیں گی اور بروز حشر یہ بچیاں بھی ”ہمیں کس خطا پر قتل کیا گیا“ کا دعویٰ لے کر ہمارے گریبان پکڑے انصاف طلب کریں گی۔