کیا اعتزاز احسن اسلام کے بغیر مسلمان ہیں

کیا اعتزاز احسن اسلام کے بغیر مسلمان ہیں

پیپلز پارٹی کے رہنما اور ممبر سینٹ چودھری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پاکستان اسلامی نہیں ”مسلم جمہوریہ“ ہے۔ پاکستان میں جتنے بھی سیکولرسٹ سیاستدان ہیں وہ اس کنفیوژن کا شکار ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر یہ بے ربط اور بے معنی گفتگو کر کے قوم کے ذہنوں میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان ایک مسلم ریاست کے طور پر حاصل کیا گیا تھا۔ قائداعظم کے پیش نظر اسلامی ریاست قطعاً نہیں تھی۔ چودھری اعتزاز احسن اور ان کی قبیل کے دوسرے سیاستدانوں کی اصل دشمنی اسلامی نظریے سے ہے جو قیام پاکستان کی بنیاد ہے۔ یہ لوگ پاکستان کو اسلام کے بغیر دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے وہ پاکستان کو مسلمانوں کا ملک تو مانتے ہیں مگر پاکستان کو اسلامی ریاست کے طور پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوتے جبکہ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا تصورِ پاکستان ان سیکولر سوچ کے حامل سیاستدانوں سے بالکل مختلف ہے۔ ویسے حیرت کی بات ہے کہ چودھری اعتزاز احسن اور اُن کی طرح کے دوسرے دانشوروں کو یہ سادہ سی بات سمجھنے میں دشواری کیوں پیش آتی ہے کہ اسلام پر ایمان لانے والے کو ہی مسلم یا مسلمان کہا جاتا ہے۔ جب ایک مسلم ریاست ہو گی تو پھر وہ لامحالہ اسلامی ریاست بھی ہو گی۔ قائداعظم نے اپنی تقاریر میں ہمیشہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات قرار دیا جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ قائداعظم نے 18 نومبر 1945ءکو صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے پیر صاحب آف مانکی شریف کے نام ایک خط میں واضح فرما دیا تھا کہ ”پاکستان میں ایک مسلم حکومت ہو گی اور وہ آئین ساز ادارہ جس میں مسلمانوں کی بہت بھاری اکثریت ہو گی وہ پاکستان میں اسلامی تصورات کے خلاف آئین نہیں بنا سکتے اور نہ ہی حکومت پاکستان (جب وہ وجود میں آئے گی) اسلامی تصور اور اصولوں کے برخلاف کوئی عمل کر سکتی ہے۔“
1973ءکا آئین قائداعظم کے ان ارشادت کے عین مطابق ہے اور خود اعتزاز احسن نے بھی اسی آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے۔ اگر سیکولر حضرات تعصب اور جہالت کی عینک اُتار کر قائداعظم کی تقاریر کا مطالعہ کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ ایک سیکولر ریاست اور اسلامی ریاست کے فرق و امتیاز کو نہ سمجھ سکیں اور قائداعظم کے نقطہ نظر میں بھی کوئی ابہام تلاش نہیں کیا جا سکتا۔ نواب بہادر یار جنگ کی موجودگی میں طلبہ اور نوجوانوں کے ایک سے تبادلہ خیالات کے دوران قائداعظم نے فرمایا تھا کہ ”جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سُنتا ہوں تو اس زبان اور اس قوم کے محاورہ کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کے درمیان باہمی نسبت اور تعلق کی طرف چلا جاتا ہے لیکن اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مسلمانوں کا یہ محدود تصور نہیں۔ میں نہ کوئی مولوی ہوں نہ مُلا اور نہ ہی مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعہ کو اپنے طور پر کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں زندگی کے روحانی پہلو، معاشرت، اقتصادیات، سیاست غرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایت اور سیاسی طریق کار نہ صرف مسلمانوں کیلئے بہتر ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کیلئے بھی جو آئینی حقوق ہیں اس سے بہتر نظریہ بھی دنیا میں ممکن نہیں۔“
مسلمان جمہوریہ کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہ اقتصادیات اور سیاست و معاشرت کے معاملات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ قائداعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ”مسلمانوں کیلئے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، ان کے پاس تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن مجید میں ہماری اقتصادی، تمدنی و معاشرتی اصلاح کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانون الہیہ پر ایمان ہے اور جو مَیں آزادی کا طالب ہوں وہ اس کلام الٰہی پر عملدرآمد کرنا ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کا حکم دیتا ہے آزادی، مساوات اور اخوت! بحیثیت ایک مسلمان میں بھی ان تین چیزوں کے حصول کا متمن ہوں۔ تعلیم قرآن ہی میں ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔“
 مَیں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ قائداعظم کو بار بار یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اسلام کی تعلیمات صرف مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں بلکہ دیوانی اور فوجداری قوانین بلکہ ایسے تمام قوانین جو ہماری معاشی، معاشرتی اور سیاسی زندگی کی ضرورت ہیں وہ بھی اسلام میں موجود ہیں۔ قائداعظم کا تواتر اور تسلسل کے ساتھ اسلامی نظریے، قرآن کی جامع تعلیمات اور سیرت رسول کی پیروی پر زور دینے کی وجہ یہ تھے کہ وہ ہم جیسے گمراہ لوگوں کو راہِ راست پر لانا اور دیکھنا چاہتے تھے جو پاکستان کو اسلامی ریاست کے بجائے صرف ”مسلم جمہوریہ“ سمجھتے ہیں اور ”مسلم جمہوریہ“ سے اُن کی مُراد یہ ہوتی ہے کہ ریاست کے ساتھ اسلام کی تعلیمات کا کوئی رشتہ نہیں ہو گا۔ اگر قائداعظم کا بھی یہی فلسفہ ہوتا تو وہ کبھی یہ نہ فرماتے کہ ”میری زندگی کی واحد تمنا یہ ہے کہ میں مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے غداری اور خیانت نہیں کی، جناح نے واقعی اسلام کے دفاع کا حق ادا کر دیا ہے اور یہ کہ جناح تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ کے بالمقابل اسلام کے جھنڈے تلے پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ کے بالمقابل اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے۔“
میرا یقین ہے کہ کوئی بھی باضمیر اور دیانتدار شخص اگر قائداعظم کی صرف درج بالا تقریر کو ہی اپنے سامنے رکھ لے تو پھر اُسے یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ پاکستان ایک اسلامی نہیں ”مسلم جمہوریہ“ ہے۔ کیا کوئی مسلمان اسلام سے خیانت اور غداری کا تصور بھی کر سکتا ہے۔ کیا اسلام کے جھنڈے کو سربلند رکھے بغیر اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ زیب دیتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...