بلاول بھٹو نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حکومت کا سربراہ عیسائی ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنی اس در فنطنی کے فوائد تو نہیں گنوائے البتہ نقادوں کو کام پر لگا دیا ہے۔ جناب حافظ حسین احمد نے مخصوص انداز میں نکتہ اٹھایا کہ ملک کو مسیحی کے بجائے مسیحا کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے جب تنقید کناروں سے باہر اچھلنے لگے تو بلاول بھی حافظ صاحب کی توجیہی آڑ میں پناہ لے کر کہہ دیں کہ انہوں نے مسیحا کہا تھا مس کوٹ ہو گیا۔
بلاول میاں کی تعلیم اور بودباش مغربی ہے مگر ہم یہ اندازہ لگانے سے قاصر ہیں کہ عیسائیوں کی وہ کون سی ادا ہے جس نے ہمارے سپوت کو متاثر کیا ہے۔ پچھلے دنوں سندھ فیسٹیول کی تقریب میں بلاول نے سینہ چاک انداز میں اپنی بنیان پر کنندہ لوگو Logoکی رونمائی کرائی تھی۔ سٹیج پر بلاول اور بختاور کی اینکری نما فنکاری دادا کاری قابل دید تھی۔ ہم نے تو وہیں سر پیٹ لیا تھا کہ عظمتوں کے راہواروں کو نہ جانے کس خیر خواہ نے رنگ و نشاط اور کھیل کھپاڑے کی راہ پر لگا دیا ہے۔ ہمیں اندیشہ ہو چلا تھا کہ یہ نوجوان اب اپنی منزلیں خود متعین اور طے کرنے پر اتر آئے ہیں۔ لیجئے پہلی منزل کے طور پر چھوٹے میاں نے عیسائیت کی جانب رغبت ظاہر کر دی ہے اندر سے کیا حقیقت نکلتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ قیاساً کہا جا سکتا ہے حضرت عیسٰےؑ کی تعلیمات کا دخل تو بہرحال نہیں ہے۔ کیونکہ وہ تو اسلام سے مماثل و منطبق ہیں البتہ صرف ممنوعات کام و دین کی استثنائی گنجائش نکلتی ہے۔ تاویل فاصل کسی عیسائی دوشیزہ کا جادو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ خبر بھی آئی تھی کہ کچھ نہ کچھ کر گزرنے پر مصُر بلاول کو قومی اسمبلی میں بھیجنے کی تیاری ہو رہی ہے ساتھ ہی یہ خبر بھی آگئی کہ ان کے مقابل ان کی عالمہ فاضلہ کزن فاطمہ کو لایا جائے گا۔ یوں یہ بلبلا بھی پوری طرح اٹھنے سے پہلے ہی بیٹھ گیا۔
بلاول کی تازہ ترین بلاولی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر اُن کا خطاب ہے۔ خطاب کیا تھا۔ PPPکا پالیسی چارٹر تھا۔ جس مرد ذِی ہوش نے بھی یہ تقریر لکھی اس نے بلاول کے قد کو تو سامنے رکھا مگر عمر کو نظر انداز کر دیا۔ ادائیگی اور ربط معانی میں جھول عیاں تھا۔ جو زباں سے ادا ہو رہا تھا اس کی پشت پر تخیل اور بے ساختگی کی مہر نا پید تھی۔ کچھ زاہد المعیاد کچھ تعلق اور بے معنی باتیں تھیں۔ مثلاً جب انہوں نے انکل نواز شریف سے تعاون کی بات کردی تو پھر طعن و تشنیع اور تند و تیز تنقید کی مرچ پاشی بے جا تھی۔ ناراض جیالوں کی انہوں نے 70سالہ 50سالہ 25سالہ کی تین اقسام میں بانٹ تو دیا مگرناراضگی کی وجوہات کا ذکر گول کرگئے۔ اپنے والد کو ایوان صدر کا قیدی کہہ کر پانچ سالہ دور کی کوتاہیوں کی ناکام پردہ پوشی کی۔ کوئی ان سے یہ پوچھے کہ آخر انہوں نے یہ قید اختیار ہی کیوں کی تھی؟ محسوس یہ ہوتا ہے کہ جناب زرداری کا ارادہ اپنی اولاد کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکنے کا بن گیا ہے۔ اس موقع پر ان کو یہ بھی سوچنا کہ وہ اپنے بچوں کو اپنے ذاتی کردار سے کون سی روایت تصویض کر رہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کے تینوں بچے پیپلز پارٹی کا اثاثہ ہیں مگر ان کو زرداری صاحب کی سیاست کا ملبہ اٹھانے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بلاول بختاور اور آصفہ کے اجلے دامن پر ماضی کی سیاست کا گند نہیں لگنا چاہیے۔ شاید سیاسی ہدایت کاروں کایہ خیال ہے کہ ان بے داغ کرداروں کو صابنوں کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ممکن ہے جذباتی وابستگی کی چال کچھ سہارا دے مگر مہنگائی‘ بے روزگاری اور دیگر گھمبیر وسائل میں گھری قوم ماضی کا حساب اور اپنے موجودہ مسائل کا فوری حل چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی ابتدا ایک پروگرام سے ہوئی تھی۔ بھٹو ازم کا نعرہ چل چل کر گھس چکا ہے اب قوم کو ٹھوس اقتصادی پروگرام اور عملی تریاق کی بنیاد پر متوجہ کیا جا سکے گا۔ خالی معصوم چہروں اور جذباتی نعروں سے مجمع تو بندھ جائے گا۔ ووٹ نہیں ملے گا۔ اس ضمن میں ایک جیالے سے بات ہوئی تو جل بُھن کر کہنے لگا ”اب تو بے چارے بھٹو کو قبر میں آرام کرنے دیں یہ کس منہ سے اس کا نام لیتے ہیں وہ تو سورج تھا اجلا تھا امید تھا حوصلہ تھا جبکہ یہ اندھیرا اور سیاہی ہیں!