الطاف بھائی پوری دنیا جانتی ہے کہ آپ آجکل زندگی کے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عمران فاروق قتل نے آپ کو مشکلات سے دوچار کر دیا ہے کہ سکاٹ لینڈ یارڈ کے قدم آپ کے لندن والے پُرتعیش فلیٹوں تک پہنچ چکے ہیں۔ آپ غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اسی لئے آپ کو اب لندن کا یہ فلیٹ جہاں سے آپ ٹیلی فونک اور ویڈیو خطاب بھی کرتے ہیں ہاتھوں سے نکلتا اور جیل کی دیواریں قریب دکھائی دینے لگی ہیں یہی وجہ ہے کہ اب آپ نے میرے بعد اور میرے بعد کے ساتھ اگلے چند دن انتہائی اہم قرار دینا شروع کر دئیے ہیں اور اس کیلئے آپ اپنے ماننے اور چاہنے والوں کو متحرک بھی کرنا شروع کر دیا ہے تو اس کے ساتھ حکومت اور ریاست کو خون خرابہ کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں، انہیں مطالبات پورا نہ ہونے کی شکل میں علیحدہ صوبہ اور علیحدہ ملک بنانے کی طرف جانے کا عندیہ بھی دینا شروع کر دیا ہے۔ لیکن واقفانِ حال اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ آپ اپنے معاملہ میں ریاست کو ملوث کر رہے ہیں تاکہ وہ ہی کوئی تحفظ کا راستہ اختیار کرے اور برطانوی حکومت سے کوئی رعایت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ لیکن ظاہر ہے کہ برطانوی حکومت قانونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے اور نہ ہی پولیس پر کوئی دباﺅ ڈال سکتی ہے اس لئے اس کے اعلیٰ ترین وزیر مشیر واضح طور پر یہ کہہ چکے ہیں ہم پولیس کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔
مان لیجئے کہ جب آپ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں تو بیرونی سرمایہ کار بھی خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور یہی وہ خوف ہی تھا کہ جس نے آپ کو برطانیہ میں شہریت فراہم کی تھی کیونکہ جس قسم کے حالات میں آپ کو کراچی سے ”فرار“ کروایا گیا تھا وہ بھی کچھ ایسے پُرامن نہیں تھے اس وقت بھی آپریشن ہو رہا تھا اور کراچی کی صورتحال خانہ جنگی سے کم نہیں تھی، ہر طرف بدامنی اور لاقانونیت کے عفریت منہ کھولے کھڑے تھے اور بیرونی سرمایہ کار بدترین عدم تحفظ کا شکار تھے انہیں آپ کی سیاسی طاقت اور طرزِ سیاست کا بھی بخوبی اندازہ تھا اس پس منظر میں ہی انہوں نے آپ کو برطانیہ میں پناہ گزین ہونے کا موقع فراہم کیا تھا، آج بھی صورتحال ویسی ہی ہے۔ ”عروس البلاد“ کراچی کی روشنیاں ماند پڑ چکی ہیں، نوگو ایریاز بن چکے ہیں، کوئی ایک دوسرے کے علاقے میں داخل ہونے کی جرا¿ت نہیں کر سکتا۔ قتل و غارت عام ہے ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر حملے ہوتے ہیں، بھتہ خوری اور پرچی سسٹم عام ہو چکا ہے، بیرونی سرمایہ کاری رک چکی ہے، مقامی سرمایہ دار ملک چھوڑ چکے ہیں، محنت کش اور مزدوروں نے اس شہر کا رُخ کرنا چھوڑ دیا ہے، سفید پوش اور مڈل کلاس لوگ ملک کے دیگر شہروں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ یہ سب آپ کی سیاسی فکر اور طرزِ سیاست کا نتیجہ ہے۔ آپریشن میں آپ کے سینکڑوں کارکن گرفتار ہو چکے ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم سے وابستگی کا اعتراف بھی کیا ہے اور اب جبکہ پولیس کی طرف سے آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے بلکہ اس کی حتمی تیاریاں بھی مکمل ہو گئی ہیں تو آپ اپنے کارکنوں کو دوہرے مقاصد کیلئے تیار رہنے کا حکم دے رہے ہیں۔ سندھ کو تقسیم کرنے اور علیحدہ ملک بنانے کی پرانی باتیں دہرانے لگے ہیں جن سے ”جناح پور“ کی آپ کی دیرینہ خواہش بھی سامنے آنے لگی ہے حالانکہ معروض میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اب سندھی پہلے سے بھی زیادہ باشعور ہیں۔
بہرحال میں تو آپ کو کچھ اور یاد دلانا چاہتا ہوں، یہ جو آپ کہتے ہیں کہ ہمارے آباﺅ اجداد نے قربانیاں دے کر یہ ملک بنایا تھا اور اب بھی یہ مہاجر قربانیاں دے سکتے ہیں تو یہ آپ کی محض غلط فہمی ہے پھر بھی میری خواہش ہے کہ آپ تاریخ کے ساتھ مذاق کرنا بند کریں۔ یہ جو آپ قربانیوں کا دعویٰ کرتے ہیں قربانیاں تو سب سے زیادہ پنجاب کے عوام نے دی تھیں، سب سے زیادہ خون بھی پاکستان کی خاطر پنجاب کی دھرتی پر بہا تھا۔ تیس لاکھ انسان موت کے گھاٹ اتارے گئے تھے، ہزاروں کی تعداد میں بہو بیٹیوں کی عصمت تار تار ہوئی تھی۔ آپ تو پاکستان بننے کے تین چار سال بعد اس وقت یہاں آئے تھے جب ہر طرف امن و چکا تھا اور آپ کے آباﺅ اجداد حکومت اور مسلم لیگ پر قبضہ کر چکے تھے اور آپ کو آتے ہی تحفظ حاصل ہو گیا تھا۔
الطاف بھائی ! میں آپ کی مجبوریاں اور مشکلات سمجھتا ہوں۔ مجھے علم ہے کہ آپ اس وقت بدترین حالات کا شکار ہیں اور آپ کو کوئی راستہ سمجھائی نہیں دیتا اور آج آپ جو کچھ بھی ہیں وہ پاکستان کی وجہ سے ہیں۔ آپ کی خواہشوں پر کوئی قدغن نہیں لیکن خدارا تاریخ کو بدلنے کی کوشش نہ کریں۔