احمد کمال نظامی
شاید ایسے تمام دعوے اور سیاسی پنڈتوں کے دعوے دم توڑ چکے ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کے سابق قائد حزب اختلاف راجہ ریاض احمد نے چند روز پہلے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیاتھا کہ جنرل(ر)پرویز مشرف نے میاںنوازشریف کو برے وقت میںانہیںسعودی عرب کے حکمرانوں کے کہنے پر وہاں بھجوایاتھا اب سعودی عرب کے وزیرخارجہ شہزاد سعود الفیصل جنرل(ر) پرویز مشرف کو غداری کیس سے رہائی دلائیں گے!!! راجہ ریاض احمد کے دعوے کے مطابق اس وقت جنرل مشرف کو سعودی عرب میںہونا چاہئے تھا، مگر سعودی وزیرخارجہ اپنا دورہ مکمل کرکے واپس جا چکے ہیں ۔ ان کا مشرف کے معاملے سے کوئی تعلق تھا یا نہیں بہر حال جنرل مشرف ابھی تک اس کیس سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے ۔راجہ ریاض احمد کے بیان کے مطابق جنرل مشرف کو عدالت جاتے ہوئے دل کا جو دورہ پڑا تھا ‘ وہ بہت حد تک ڈرامہ ثابت ہوا ہے۔ برطانوی ڈاکٹروںنے ان کی میڈیکل رپورٹوںکاجائزہ لے کر انہیں شفا کیلئے ساز گار ماحول بہم پہنچانے کامشورہ دیاہے گویا عدالتی کارروائی کی وجہ سے جنرل (ر)پرویز مشرف ڈپریشن میں ہیں اور انہیں اپنے خلاف کیس کے دباﺅسے نجات ملے بغیر مکمل آفاقہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پیپلزپارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے جنرل مشرف کے عدالت جاتے ہوئے دل کادورہ پڑنے پر تبصرہ کیا ہے کہ انہیں عدالت میں پیش ہونے کے خوف سے دل کادورہ پڑاہے۔ پنجاب کے صوبائی وزیر رانا ثناءاللہ خاں اور سابق میئر فیصل آباد چوہدری شیر علی بھی جنرل پرویز مشرف کے عارضہ دل کو بغاوت کے مقدمہ کے خوف سے تعبیر کرچکے ہیں جبکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمدآصف کا یہ بیان اس لحاظ سے انتہائی معنی خیز ہے کہ اگر عدالت نے جنرل مشرف کے بیرون ملک علاج کی سفارش کی تو حکومت مزاحمت نہیں کرے گی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکلاءکی کوشش ہے کہ وہ حیلے بہانے جنرل مشرف پرغداری کیس کی فرد جرم عائد نہ ہونے دیںاور وہ فرد جرم کے عائد ہونے کو روکنے کیلئے اس کوشش میںہیں کہ ان کو خصوصی عدالت میں پیش نہ ہونے دیں۔ فوجداری مقدمہ میں کسی ملزم پر اس وقت تک فرد جرم عائد نہیں ہوتی جب تک وہ عدالت میں پیش نہ ہو ۔ حکمران جماعت کے بعض لیڈروں سمیت وفاقی وزارت خارجہ کا یہ موقف ہے کہ سعودی وزیر خارجہ کادورہ پہلے سے طے شدہ تھا اورشہزادہ سعود الفیصل کے دورہ پاکستان اور جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف غداری کیس کے حوالے سے خصوصی عدالت میں پیش ہونے کی تاریخوں میں مماثلت محض اتفاقی ہے لیکن ملک کے سیاسی حلقے تاحال یہ محسوس کررہے ہیں کہ شہزادہ سعود الفیصل کا یہ دورہ پاکستان‘ جنرل مشرف کو راہ نجات دلانے کی کوشش تھی۔ عدالتی کارروائی کے دوران سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کابیمار ہو کر عدالت پہنچنا بظاہر کوئی معمولی واقعہ نہیں مگر انسانی زندگی کے حوالے سے کسی کااچانک عارضہ دل میں مبتلا ہو جانا بھی کوئی غیر متوقع امر نہیں ہے ۔البتہ وطن عزیز کے معروضی حالات میں جس طرح غداری کے مقدمہ میں پہلی پیشی سے پہلے ان کی رہائش گاہ کے قریب یکے بعد دیگرے سکیورٹی کے حوالے سے خطرناک صورتحال پیدا ہوئی اور پھر عدالت میں پیشی سے پہلے وہ راستے میں علیل ہو کر فوجی ہسپتال میں پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل بھی اپنے خلاف خصوصی عدالت میں بغاوت کیس کے چلائے جانے پر اعتراض کرتے ہوئے انہوں نے اسی طرز عمل کا ثبوت دیا ہے۔ افواج پاکستان کے نئے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے حوالے سے ان کا یہ کہنا کہ دیکھیں وہ اس سلسلہ میں کیا کرتے ہیں معنی خیز ہے۔ اس کے علاوہ اپنے جانشین سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل(ر) اشفاق پرویز کیانی کے حوالے سے اس قسم کے خیالات کااظہار کرنا کہ انہوںنے انہیں غداری کیس میں ملوث کئے جانے سے روکنے کیلئے اپنا کردار ادانہیں کیا، یہ بھی غیر معمولی ریمارکس ہیں۔ اب جنرل مشرف کی حمایت میں مسلم لیگ ق کے قائد چوہدری شجاعت حسین کی طرف سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ3نومبر2007ءکی ایمر جینسی کے نفاذ کے بجائے12اکتوبر1999کے فوجی ٹیک اوور کے حوالے سے جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھیوں کیخلاف مقدمہ چلایا جائے۔ گویا یہ ایک ایسا مطالبہ کیاجارہاہے کہ اگرجنرل(ر) پرویز مشرف کیخلاف 12اکتوبر1999ءکے ٹیک اوور سے بغاوت کامقدمہ چلانے کی بات تسلیم کرلی جائے گی تو پھر ملک میں لگنے والے ماضی کے مارشل لاﺅں کے حوالے سے بھی آئین توڑنے والوں کیخلاف آئین سے غداری کا سوال اٹھا کر اس معاملہ کو بلا وجہ سیاست میں الجھایاجائے گا۔ 12اکتوبر1999ءسے جنرل پرویز مشرف کیخلاف غداری کامقدمہ چلانے کی بات اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی طرف سے بھی کی جاچکی ہے اور یہ مطالبہ کرنے والے یہی چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ آگے نہ بڑھ سکے۔ پیپلزپارٹی کی ساری قیادت جنرل پرویزمشرف کوٹرائل کرنے کے حوالے سے متضاد بیان بازی کواپنائے ہوئے ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو خود پیپلزپارٹی نے ایوان صدر سے پروٹوکول دے کر رخصت کیاتھا۔ پیپلزپارٹی کی مرحومہ لیڈر بینظیر بھٹو نے جنرل پرویز مشرف سے این آر او نافذ کرانے کیلئے سمجھوتہ کیاتھا۔ پیپلزپارٹی چاہتی تو جنرل (ر) پرویز مشرف کیخلاف خود ملک سے غداری کا مقدمہ چلاسکتی تھی لیکن جنرل (ر) پرویزمشرف کو بزدلی کا طعنہ دینے والے بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی کو اقتدار کے پانچ سال پورے کرنے کا اس قدر جنون تھا کہ آصف علی زرداری نے مفاہمت کی سیاست کے نام پر اس سیاسی جماعت کے لیڈروں کو بھی گلے لگالیاتھا جن کی سیاسی پارٹی کو وہ ق لیگ کے بجائے قاتل لیگ کہہ چکے تھے۔ پیپلزپارٹی پانچ سالوں تک اس خوف میں مبتلا رہی کہ اگر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آئین کو پائمال کرنے کا یا بینظیر بھٹو کے قتل کامقدمہ چلایا تو پاک فوج میں ان کی کوئی لابی آصف علی زرداری کے اقتدار کو چلتا کرنے کی کوشش نہ کرڈالے۔ آصف علی زرداری کو ایوان صدر میں بیٹھ کر رات کے اندھیرے میں اقتدار کی گائے کا دودھ پی جانے والے”بلے“ کا تذکرہ کرنے کاخیال بالکل بھی نہیںآیا اور اب انہیں ملک میں مارشل لاءکانفاذ کرنے والے تمام واقعات یاد آرہے ہیں۔ جنرل مشرف کو اقتدار سے رخصت کرنے اور ملک کوفوجی آمریت اور باوردی جرنیل کی آمرانہ جمہوریت سے نجات دلانے کا سہرا ملک کی اعلیٰ عدالتوں‘ خصوصاً سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سرہے۔ ورنہ پیپلزپارٹی اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے جوڈیشل مرڈر کے بعد‘دلیرانہ سیاست کے تمام آداب بھول چکی ہی۔ راجہ ریاض احمد نے وزیراعظم میاں نوزشریف سے تو کہہ دیاہے کہ میاں نوازشریف میں ہمت ہے تو جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ چلا کر دکھائے لیکن وہ خود بھی اس بات کی وضاحت کیوں نہ کریں کہ ان کی پارٹی نے جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ 21توپوں کی سلامی دے کر ایوان صدر سے کیوں رخصت کیا تھا ۔ جب جنرل پرویز مشرف نے چیف آف آرمی سٹاف کی وردی میں6اکتوبر2007ءکوصدارتی الیکشن میں حصہ لیاتھا پاکستان پیپلزپارٹی نے اس روز پارلیمنٹ کے اجلاس کابائیکاٹ کیوں نہیں کیاتھا۔ کیا اس ”باوردی صدارتی امیدوار“ کو وردی میں ملک کا صدر بنانے میں پیپلزپارٹی بھی ق لیگ کے برابر کی مجرم نہیں تھی۔
سیاست میں الجھے بغیر عدالت پر انحصار کی ضرورت
Jan 09, 2014