اسلام آباد (نیوز ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس میں ضابطہ فوجداری کی دفعات کے اطلاق اور مقدمہ کی سماعت کے حوالے سے خصوصی عدالت کے اختیارات پر فریقین کے وکلاء کی جانب سے بحث مکمل ہونے پر خصوصی عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا جو (کل) جمعہ کو سنایا جائے گا جبکہ عدالت سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد آج (جمعرات) کو فیصلہ سنائے گی کہ میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر سابق صدر کو مزید عدالتی حاضری سے استثنیٰ دیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ فیصلہ سے قبل فریقین کے وکلاء سابق صدر کی میڈیکل رپورٹ پر اپنے دلائل دیں گے، ادھر مشرف کے وکیل خالد رانجھا نے کہا ہے کہ ضابطہ فوجداری قانون کے اطلاق سے متعلق عدالتی فیصلے کے بعد وہ اس بات پر دلائل دیں گے کہ جنرل مشرف کے خلاف مقدمے کی سماعت کا اختیار خصوصی عدالت کو ہے یا اختیارات ملٹری کورٹ کے پاس ہیں؟ سابق صدر کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کو اس مقدمہ کی سماعت اور ملزم کی گرفتاری کیلئے وارنٹ جاری کرنے یا ضمانت لینے کا کوئی اختیار نہیں جبکہ سپیشل پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ اگر خصوصی عدالت کے پاس کسی کو گرفتار کرنے یا وارنٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں تو اسے بند کردیا جائے۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے مقدمہ کی سماعت کی۔ انور منصور نے اپنے دلائل دوسرے روز بھی جاری رکھتے ہوئے خصوصی عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت ایک سپیشل ایکٹ کے تحت قائم کی گئی ہے مگر خصوصی عدالت کے پاس فوجداری مقدمات سننے کے اختیارات نہیں نہ ہی ایسے مقدمات کے ٹرائل خصوصی عدالتوں میں کیے جاسکتے ہیں بلکہ اس کے لئے پہلے سے عدالتیں موجود ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کے پاس ملزم کو گرفتار کرنے، ملزم کا وارنٹ گرفتاری جاری یا ملزم کو ضمانت پر رہا کرنے کے حوالے سے بنیادی اور اہم اختیارات سرے سے موجود ہی نہیں، اس موقع پر مقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے انور منصور کی مخالفت میں دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں ایسا کوئی سقم نہیں کہ وہ اس مقدمہ کی سماعت نہ کرسکے، بلکہ خصوصی عدالت کا ایکٹ اس عدالت کو یہ اختیارات دے چکا ہے اسی لئے چیف جسٹس آف پاکستان نے اس مقدمہ کی سماعت کے لئے وفاق کی درخواست پر خصوصی عدالت کے قیام کی منظوری دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ غداری کیس بھی فوجداری نوعیت کا ہے اور اس مقدمے کا مقصد ان الزامات کو فاضل عدالت کے سامنے ثابت کرنا ہے جن کا پرویز مشرف کو سامنا ہے۔ انہوں نے مختلف مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں عدالت یہ قرار دے چکی ہے کہ جہاں خصوصی قانون خاموش ہو وہاں ضابطہ فوجداری کے قوانین یاقانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ ضابطہ فوجداری قانون ایک گاڑی ہے جس پر شفاف ٹرائل کے لئے خصوصی قانون سفر کرتا ہے۔ اگر خصوصی عدالت کے پاس کسی کو گرفتار کرنے یا وارنٹ جاری کرنے کا اختیار نہیں تو اسے بند کردیا جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خصوصی عدالت کو ایسے تمام اختیارات حاصل ہیں جو اس کیس کے شفاف ٹرائل کے لئے ضروری ہیں۔ بی بی سی کے مطابق سماعت کے دوران خصوصی عدالت کے سربراہ فیصل عرب نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا اس مقدمے میں ضمانت کی کوئی گنجائش ہے یا اس پر ضابطہ فوجداری کا اطلاق ہوتا ہے جس پر چیف پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ قانون میں ملزم کے وارنٹ جاری کرنے اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہ کار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع کیا گیا ہے۔ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ غداری کا مقدمہ بھی ضابطہ فوجداری کے تحت ہی آتا ہے۔ سماعت کے دوران پراسیکیوٹر اکرم شیخ نے کہا کہ خصوصی عدالت کی تشکیل میں کوئی ابہام نہیں اور وہ فوجداری مقدمہ سن سکتی ہے۔ دوسری جانب آج بھی سماعت کے دوران خصوصی عدالت کے احاطے میں صحافیوں کو کوریج سے روکا گیا جس پر سکیورٹی اہلکاروں اور میڈیا ٹیم کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی۔ خصوصی عدالت میں مقدمہ کے پراسیکیوٹر اکرم شیخ اور سابق صدر کے وکلاء کے درمیان نوک جھونک کا سلسلہ جاری رہا۔ اکرم شیخ کی عدالت سے گرم پانی پینے کی استدعا اور انور منصور کی جانب سے گرم پانی پی کر ماحول کو گرمانے پر فریقین کے وکلاء کے درمیان دلچسپ جملوں کا تبادلہ ہوا۔