اسلام آباد (آئی این پی) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کر تے ہوئے کہا ہے کہ قانون نافذکرنے والے اداروں کو مشتبہ افراد کو 90 دن تک حراست میں رکھنے کا اختیار نہیں دینا چاہئے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمن نے کہا کہ حکومت کسی مخصوص شخص یا جماعت کو ٹارگٹ کرنے کیلئے قوانین نہیں بنا رہی بلکہ دہشت گردی او ربدامنی کے خاتمہ کیلئے قانون میں ترمیم کی جا رہی ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے بل کی منظوری کو موخر کرتے ہوئے آئندہ پیر کو کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کر لیا۔بدھ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس کمیٹی چیئرمین رانا شمیم احمد خان کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں وزیر مملکت برائے داخلہ انجینئر بلیغ الرحمن اور کمیٹی کے اراکین سمیت وزارت داخلہ کے حکام نے شرکت کی۔ نیکٹا حکام نے انسداد دہشت گردی ترمیمی آرڈیننس 2013ءپر کمیٹی کو بریفنگ دی۔ تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد چیئرمین نے آرڈیننس کی منطوری کرانا چاہی تو ایم کیو ایم‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف‘ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے بل کی بعض شقوں کی شدید مخالفت کر دی اور کہا کہ حکومت کو جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آرڈیننس کو منظور نہیں کرانا چاہیے کیونکہ ماضی میں نواز شریف حکومت نے جو قوانین بنائے تھے انہی کے تحت انہیں سزا دی گئی تھی لہذا قوانین بناتے وقت اس بات کو مد نظر رکھنا ہو گا کہ کل یہ سیاستدانوں کے خلاف استعمال نہ ہوں۔ ایم کیو ایم کے آصف حسنین نے کہا کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے ادارے مادر پدر آزاد ہیں ان کو لامحدود اختیارات دے کر کل ہم پچھتائیں گے۔ وزیر مملکت بلیغ الرحمن نے کہا کہ لاپتہ افراد کے کیس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا گیا ہے۔ حکومت لاقانونیت کا خاتمہ چاہتی ہے۔ قبل ازیں کمیٹی کے رکن نبیل گبول نے کہا کہ انہیں ظفر بلوچ کے قتل کے جھوٹے مقدمہ میں پھنسایا جا رہا ہے کہ مجھے لٹکایا جا سکے۔ کمیٹی کو مقدمہ کا نوٹس لینا چاہئے۔
منظوری م¶خر