صرف فوجی عدالتوں کے قیام سے مسائل حل نہیں ہونگے

غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے جہاں حکومت بہت سارے دوسرے اقدامات اٹھا رہی ہے وہاں سپیشل ملٹری کورٹس بنانے کیلئے آئین اور پاکستان آرمی ایکٹ میں ایک عارضی ترمیم ایک غیر خوش آئند لیکن ضروری قدم تھا۔ اس پر وزیر اعظم اور تعاون کرنے والی ساری جماعتیں اور ہر طبقہ فکر کے لوگ مبارک کے مستحق ہیں لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ بات صرف آئین میں ترمیم اور آرمی ایکٹ میں تبدیلی پر ختم نہیں ہوتی بلکہ دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے یہ پہلی سیڑھی ہے۔ اب ہمیں یہ ثابت بھی کرنا ہو گا کہ بحیثیت قوم ہم نے فوجی عدالتوں کے عارضی قیام کا جو فیصلہ کیا ہے وہ واقعی قومی مفاد میں ہر لحاظ سے صحیح فیصلہ تھا۔ یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اس کیلئے مؤرخ اس وقت تک ہمیں معاف نہیں کریگا جب تک زمینی حقائق امن کے حق میں تبدیل ہوتے نظر نہ آئیں۔ ان دو سال میں انصاف کی جلد فراہمی سے دہشتگردی کی حوصلہ شکنی اور ان انسان کش وارداتوں میں کمی نظر آنا نہایت ضروری ہے ورنہ اس فیصلے کے ناقدین کسی کو بھی بخشیں گے نہیں۔
 اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا صرف فوجی عدالتوں کے تیز رفتار فیصلوں سے ہم دہشتگردی پر قابو پا سکیں گے؟ اس کا جواب بدقسمتی سے نفی میں ہے۔ چونکہ عدالتوں کا قیام اور مقدمات کی لگاتار سماعت اس وقت تک سود مند ثابت نہیں ہو سکے گی جب تک ہماری کریمنل انٹیلی جنس کے موجودہ معیار کو کم از کم سو فیصدی بہتر نہیں بنایا جاتا۔ کریمنل کیسز میں انصاف کے حصول اور دہشتگردوں کی کمین گاہ کی دہلیز تک پہنچنے کیلئے کریمنل انٹیلی جنس کے مؤثر ترین نظام کا ہونا ضروری ہے چونکہ ہمارا مقصد یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ پہلے دہشتگرد حملہ کر کے ہمارے لوگوں کو ہلاک کر ڈالے اسکے بعد ہم اگر اس کو حراست میں لے سکیں تو گرفتار کر کے اسے فوجی عدالت میں جلد از جلد سخت ترین سزا دلوائیں۔ یہ بہت کمزور حکمت عملی ہے۔ دراصل حکومت کا مقصد یہ ہونا چاہئیے کہ پیشتر اسکے کہ دہشتگرد اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہو سکے، منصوبہ بندی کے مراحل پر ہی ہماری انٹیلی جنس اس کا سراغ لگائے اور اس کو حراست میں لے لے، پھر ثبوت کے ساتھ اس پر مقدمہ چلے اور اس کو سخت ترین سزا ملے۔ قومی سلامتی کے اداروں کی کامیابی کا راز اسی میں پنہاں ہے۔دوسری چیز جو ملزموں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے سے بھی پہلے کرنا ضروری ہے وہ فول پروف انویسٹی گیشن یا تحقیقات کے مراحل ہیں جن کیلئے کوالیفائڈ عملہ اور فرانزک لیبارٹریوں کا ہونا ضروری ہے۔ ملٹری کورٹس تشکیل دینے کیلئے جی ایچ کیو کیAG برانچ کے پاس کوالیفائڈ لوگوں کی کمی تو نہیں لیکن پھر بھی بڑے پیمانے پر مقدمات کو سننے کیلئے یہ ضروری ہے کہ کچھ مزید پیشہ ور لوگ کانٹریکٹ پر بھرتی ہی نہ کئے جائیں بلکہ اپنی لیگل ٹیم کو ملک کے ممتاز قانون دانوں سے مشاورت کا بندوبست بھی کیا جائے۔ قارئین! فوجی عدالتوں کے قیام کیساتھ ساتھ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ایک فاسٹ ٹریک پروگرام کے تحت موجودہ نظام عدل میں بنیادی تبدیلیاں لانے والی اصلاحات بھی پہلے دن سے ہی شروع کر دی جائیں چونکہ اگر فوجی عدالتوں کے دو سالہ دور کے خاتمہ کے بعد ہمارا موجودہ عدل کا بوسیدہ نظام اپنی جدید مؤثر شکل میں سامنے نہ آ سکا تو یہ بحیثیت قوم ہماری بڑی ناکامی ہو گی اور آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کرینگی۔ اس سلسلے میں معیاری کھرے اور پیشہ ور ججوں کی سلیکشن، انکی تربیت، عدالتوں کی تعداد میں اضافہ، وکلاء کے معیار میں بہتری، قانون شہادت میں بہتری تحقیقات کے نظام کیاصلاح، پولیس کی بہتر انویسٹی گیشن کرنے کیلئے تربیت اور ملک کے احتساب کے نظام کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ضلعی صوبائی اور وفاقی سطح پر محتسب ان قابل قدر ہستیوں کو تعینات کیا جائے جن کے ماضی بے داغ ہوں۔ مشکوک کردار کے حامل لوگوں کو ان عہدوں پر بٹھا کر یہ توقع کرنا کہ عدل و انصاف اور احتساب کے نظام میں انقلابی تبدیلی آئیگی خام خیالی ہے۔ اسکے علاوہ اگر ملک پر دہشتگردی کا خاتمہ اور پُر امن داخلی فضا قائم کرنا مقصود ہے تو ظاہر ہے یہ مقصد صرف زیر حراست دہشتگردوں کو قلیل ترین مدت میں سزا دینے سے حاصل نہیں ہو گا۔ اس کیلئے قومی ایکشن پلین کے باقی انیس اقدامات بھی انتہائی ضروری اور اتنے ہی اہم ہیں جن پر فوری عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ قارئین !آپ جانتے ہیں کہ ٹیررازم یا دہشتگردی ایک کریمنل ایکٹ ہے جس کو روکنے کی مرکزی ذمہ داری ہماری پولیس اور بشمول انٹیلی جنس کے اداروں کی ہے۔ انکی بہتری کیلئے اصلاحات کا ٹائم ٹیبل سامنے لانا بہت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ 15 لاکھ کے قریب مہاجرین کی واپسی کا ایک جامع پروگرام بھی فوری مرتب ہونا چاہئیے۔ قبائلی پٹی کے بے گھر ہونیوالے 12 لاکھ افراد کی واپسی کا بھی ایک بہترین ٹائم ٹیبل سامنے آنا چاہئیے اور سب سے اہم یہ بھی ہے کہ فاٹا کی پاکستان کی فیڈریشن میں حیثیت کا تعین بہت جلد ہمارے قبائل سرداروں کی منشا سے کرنا ضروری ہے۔ اگر فاٹا کا آئینی ڈھانچہ وہی رہتا ہے جس نے ہمارے 50 لاکھ بھائیوں کو پچھلے 67 سال تک محرومیوں سے دو چار رکھا تو پھر تو شاید کسی بھی نئی قانونی اصلاحات کی ضرورت نہیں لیکن اگر فاٹا کو KPK کا حصہ بنادینا یا الگ صوبہ بنا کر ان کو اپنی عدالتیں قائم کرنے دینا۔ اپنا ناظم اعلیٰ اور اپنا لیفٹیننٹ گورنر بنانا ہے تو اس کیلئے قانون سازی میں دیر نہ کی جائے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ بلوچستان کیلئے اصلاحات کا کوئی الگ پیکیج ہو۔ اس صوبے سے بھی افغان مہاجرین کا واپس/ اپنے وطن جانا ضروری ہے اور افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحدیں اور ساحلی پٹی پر مؤثر گشت کا نظام قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ ساتھ ہی ہمیں غیر قانونی اسلحہ رکھنے والوں کے خلاف سخت ترین اقدامات کو عملی طور پر اٹھانا ہو گا۔
کراچی شہر سے آبادی کے دبائو کو ہٹانے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ساحل سمندر پر نئے شہر آباد کئے جائیں۔ کراچی کو امن کا شہر بنانے کیلئے وہاں پولیس فورس میں اضافہ کیا جائے۔ فوجی عدالت کے قیام کیلئے خوبصورت عمارات کی بالکل ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ ایک فوجی خیمے میں یا درخت کے سائے میں بھی لگ سکتی ہیں۔ ملک میں ان عدالتوں کو تین جگہوں پر تو ضرور لگنا چاہئیے۔ ایک تو قبائلی علاقوں اور خیبرپختونخواہ کے صوبے میں، دوسرا بلوچستان میں اور تیسرا کراچی کی ملیر چھائونی میں یا لیاری کے علاقے میں ضرورت پڑے تو جنوبی پنجاب میں بھی ان عدالتوں کے بنچ بیٹھ سکتے ہیں۔ ہر قسم کے قاتل، بھتہ لینے والے، اغواء برائے تاوان کے مجرم بڑے بڑے بدنام زمانہ ڈاکو اور اہم ترین سرکاری عہدوں پر بیٹھ کر میگا کرپشن میں ملوث وہ سرکاری عہدے داران جنہوں نے سرکاری یا نجی زمینوں پر زبردستی قبضہ کیا یا کروایا اور کروڑوں یا اربوں روپے کا حکومتی تجوری کو ٹانکا لگایا سب کو کم سے کم مدت میں قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے سخت ترین سزائیں ملنی چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری دور میں فوجی عدالتوں کے عارضی قیام کا دکھ دہ لیکن ضروری قدم ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو مجبوراً ملک کے مفاد میں اٹھانا پڑا۔

ای پیپر دی نیشن