نیویارک میں مقیم ہمارے ایک صحافی بھائی محمد فرخ بڑے جلے کٹے الفاظ میں رپورٹ جاری کرتے ہیں ”ورجینیا کے سابق گورنر ریپبلکن رہنما باب میکڈونل کو رشوت کے الزام میں دو سال سزا، پاکستان کے گلے سڑے سیاسی نظام اور بدعنوانی کی کوکھ سے جنم لینے والے سیاستدانوں اور اجلی وردی کو داغدار کرنے والے بعض جرنیلوں کے لئے ایک روشن مثال ہے۔ دنیا کی ایک بڑی ریاست کے بااثر تصور کئے جانے والے سابق گورنر میکڈونل کو ایک فیڈرل کورٹ نے دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ پراسیکیوٹر نے بارہ سال سزاکا مطالبہ کیا تھا مگر گورنر میکڈونل نے اپیل کی تھی کہ انہیں جیل میں کم از کم عرصہ بھیجا جائے، باقی عرصہ جھاڑو صفائی کا کام بطور سزا کرنے کو تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے نام نہاد سیاستدانوں کے لئے یہ خبر مثال ہے جو ان نبی کے اُمتی کہلاتے ہیں جن کے دور میں ایک باعزت عرب خاتون کی چوری معاف کرنے کی سفارش آئی تو آپ نے فرمایا ”تم سے پہلے کے لوگ اس لئے برباد ہو گئے کہ جب کوئی عام آدمی جرم کرے تو سزا پائے اور بڑا غلط کام کرے تو سزا سے بچ جائے۔ خدا کی قسم! میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے تو سزا پائیں گی۔“ مہذب معاشروں میں بڑے لوگوں کو سزائیں ملنا ایک عام بات ہے جبکہ پاکستان میں معمولی چور کو جان سے مار دینا بڑی خبر سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کا سنگین ترین مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن لہو میں رچ بس چکی ہے۔ پاکستان کا چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔ اوپر سے نیچے تک جھوٹ اور بدعنوانی معاشرے کا ناسُور بن چکا ہے۔ پیسے کی ہوس نے جان کی قیمت سستی کر دی ہے۔ پاکستان جیسے غیر محفوظ ملک سے نکل کر دنیا کا ہر ملک محفوظ دکھائی دیتا ہے۔ ترکی اور سعودی عرب میں آج بھی لوگ بے خوف نیند سوتے ہیں گو کہ دنیا بدل چکی ہے مگر اتنے بُرے حالات کسی ملک کے نہیں دیکھے جتنی بُری حالت پاکستان کی ہو چکی ہے۔ استنبول کے امن کو شاید نظر لگی ہے کہ ایک خاتون نے خودکش حملہ کر دیا۔ ایک پولیس اہلکار اور دو افراد زخمی ہو گئے۔ استنبول کے مشہور سیاحتی مقام سلطان احمد مسجد کے قریب ایک نامعلوم خاتون نے خودکش حملہ کیا۔ خدا اس پر امن مملکت کو پاکستان بننے سے بچائے۔ دشمنان اسلام دنیائے اسلام کو دہشت گردی کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں۔ پاک ترک دوستی بے مثال ہے۔ ترک قوم پاکستانیوں سے پیار کرتی ہے، عزت و احترام کرتی ہے جبکہ دنیا کے باقی ممالک خواہ وہ عرب ممالک ہوں، پاکستانیوں کی عزت نہیں کرتے۔ پاکستانیوں نے اپنی عزت خود گنوائی ہے اور اس کا سبب کرپشن اور جھوٹ ہے۔ ترکی میں ہمارا یادگار وزٹ ہمیں بار بار اس ملک میں جانے پر مجبور کرے گا۔ ترکی میںمسلمانوں کی عالی شان تاریخ اور دور جدید کے مسلمانوں میں بھائی چارہ کی مثال قابل تحسین ہے۔ استنبول میں دو زمانے اور قومیں آباد ہیں۔ ایک حصہ قدیم ثقافت پر مشتمل ہے اور دوسرا حصہ جدید دور کی عکاسی کرتا ہے۔ مذہبی طبقہ بھی موجود ہے اور لبرل عوام بھی اسی خطہ میں ہنستے بستے ہیں مگر کوئی کسی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ مذہب کی پوری آزادی حاصل ہے اور نائٹ کلب بھی کھلے رہتے ہیں۔ سیکولر ازم کی صحیح ترجمانی ترکی میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حرمین شریفین میں بھی ترک قوم سب سے زیادہ پُرامن اور خوش اطوار سمجھی جاتی ہے۔ سلطان کے محل میں ایک طرف شہنشا ہ دو جہان نبی اقدس اور آپ کے اصحاب اور اہل بیت کے درویشانہ تبرکات محفوظ ہیں جبکہ دوسرے حصے میں دنیا کے شہنشاہوں کے بیش بہا نوادرات نمائش کے لئے پیش ہیں۔ مسلمان حکمرانوں ،بادشاہوں اور سلطانوں نے عیش و عشرت کی زندگی گزاری مگر ان میں نورالدین زنگی، محمود غزنوی، سلطان محمد جیسے حکمران بھی گزرے ہیں جن کا ظاہر شاہانہ تھا مگر دل ایمان سے منور تھا۔ سلطان کے محل کے اسلامی میوزیم میں گزشتہ چار سو سال سے لائیو تلاوت کا سلسلہ جاری ہے۔
حضور اور آپ کے خاندان کے نوادرات رکھے ہیں وہاںایک کمرے میں خوش الہان ترک قاری شب و روز تلاوت قرآن پاک میں مصروف رہتے ہیں۔ انتہائی روحانی و نورانی ماحول ہے۔ سلطنت عثمانیہ نے دین و دنیا میں فتح کے جھنڈے گاڑ دیئے جبکہ موجودہ مسلم حکمران اسلام کی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ خود ساختہ فرقہ واریت کے جہنم میں جھلس رہے ہیں جبکہ دشمن انہیں اپنی موت مارنے کا تہیہ کر چکا ہے۔ استنبول کے لوگ وزیراعظم میاں نواز شریف کی تعریف کر رہے تھے کہ وہ ہمارے ملک آئے اور ہمارے صدر نے انہیں تمغہ جمہوریت سے نوازا۔ سعودی عرب کے بدّو دکاندار میاں صاحب کے بارے میں ملے جلے جذبات رکھتے ہیں۔ جمہوریت، آمریت، ملوکیت یا خلافت اسی ملک میں کامیاب ہے جہاں لوگوں کو تحفظ اور امن مہیا ہے۔ پاکستان کے عوام بھی امن اور تحفظ چاہتے ہیں خواہ کوئی طریقہ حکمرانی رائج ہو ۔ جب تک پاکستان کی جیلیں بڑے چوروں سے نہیں بھری جاتیں، اس ملک میں ہر قسم کا نظام ناکام ہے۔