عنبرین فاطمہ
پشاور کے آرمی پبلک سکول میں طالبان کے ہاتھوں معصوم بچوں کی شہادت کے واقعہ کے بعد اب والدین اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے خوفزدہ ہیں۔دہشت گردی کے خدشات کے پیش نظر حکومت نے جہاں تعلیمی اداروں میں بہت سارے حفاظتی اقدامات کرنے کے حکم جاری کئے ہیں جس میں سکولوں کی دیواریں اونچی کرنا،سی سی ٹی وی کیمرے ،واک تھرو گیٹ لگانے جیسے کام قابل ذکر ہیں وہیں تعلیمی اداروں میں دسمبر کی چھیٹیوں میں توسیع کر دی گئی ہے۔پنجاب بھر میں اس وقت 52ہزار سات سو سات سرکاری،ایک لاکھ سے زائد پرائیویٹ اور تقریباً تین ہزار سے ذائد دینی مدارس ہیں جن میں ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کےلئے پشاور سانحے کے بعد 16دسمبر کو تمام تعلیمی اداروں کو حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات کرنے کےلئے نوٹفیکیشن جاری کیا گیا۔حکومت وقت نے تمام سکولوں کو ممکنہ دہشت گردی کی روک تھام کے لئے جو اقدامات اٹھانے کےلئے حکم جاری کئے ہیں وہ ابھی تک قابل عمل نہیںہو سکے۔نوے فیصد ایسے تعلیمی ادارے ہیںجہاں ابھی تک کچھ نہیںکیا گیا اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کے پاس فنڈز ہی نہیںہیں۔اسکے علاوہ ای ڈی او اور ڈی اوز نے محکمہ تعلیم کے اعلی افسروں کو ابھی تک اس صورتحال سے آگاہ نہیں کیا بلکہ انہوںنے اعلیٰ حکام کو دہشت گردی کی روک تھام کےلئے کئے جانے والے اقدامات پر عمل درآمد کروانے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ہنگامی طور پر تعلیمی اداروں کو بند کرنا حکومت کی مجبوری ہے لیکن جہاں طالب علموں کو تعلیمی اہمیت سے آگاہی ہونی چاہیے وہیں والدین کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ بچے کے مستقبل کا انحصار اس کے تعلیمی کیرئیر پر منحصر ہے۔ہمارے ہاں مذہبی، مقامی، قومی تہواروں اور ہنگامی صورتحال میں سکولوں کی جانب سے جب بچوں چھٹیاں دی جاتی ہیں تو چھٹیوں سے قبل ہی والدین بچوں کو گھر بٹھا لیتے ہیںاس کے علاوہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد طالب علم کئی کئی روز تک سکولوں کا رخ نہیں کرتے اور والدین بھی اس بات کو لیکر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہنگامی صورتحال میں دی جانے والی چھٹیوں کے بعد والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو سکولوں میں ضرور بھیجیں۔دوسری جانب حکومت کی بھی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ میڈیا کے ذریعے اےک تشہیری مہم چلائے جس میں والدین کو باقاعدہ بتایا جائے کہ سکولوں میں ہنگامی صورتحال کے پیش نذر اتنے دنوں کے لئے چھٹیاں دی جا رہی ہیں اس کے بعد والدین بچوں کی سکولوں میں حاضری کو یقینی بنائیں۔پانچویں اور آٹھویں جماعت کے امتحانات فروری اور میٹرک کا مارچ کے پہلے ہفتے میں منعقد ہونے ہیں اب ہنگامی صورتحال میں دی گئی چھٹیوں کا نقصان یہ ہے کہ بچوں کا تعلیمی سلسلہ اس وقت منقطع ہے اور ان کو روٹین میں لاتے ہوئے بھی ایک سے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ درکار ہے۔لہذا والدین کو چاہیے وہ اپنے بچوں کو گھرمیں پڑھانے کا سلسلہ جاری رکھیں۔باقی اگر دیکھا جائے تو دہشت گردی کے پیش نظر تعلیمی اداروں کو بند کردینا مستقل حل نہیں ہے۔بچوں کو ممکنہ دہشت گردی کے خوف سے آزاد کرنے کےلئے چھٹیوں کے بعد والدین بچوں کو سکول چھوڑنے آئیں اور سکولوں کے سربراہان بچوں کا خود استقبال کریں تاکہ طالب علموں کو حوصلہ مل سکے کہ سب اچھا ہے اوروہ اپنی تمام تر توجہ پڑھائی پر ٹھیک انداز میں دے سکیں ۔اس کے علاوہ محکمہ تعلیم کے افسران میٹنگز میں جاکر سب اچھا کی رپورٹ دینے کے بجائے سکولوں کا معائنہ کریں اور زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی رپورٹس اعلی حکام کو دیں تاکہ حکومت کو بھی ادراک ہو سکے کہ ہم ممکنہ دہشت گردی کو روکنے میں کس حد تک کامیاب ہو سکے ہیں۔