ڈاکٹر ارشد علی
”ڈاکٹر جمیل انور“لاہورگیریژن یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر ہیں۔ آپ پنجاب یونیورسٹی میں صدرشعبہ کیمسٹری ،ڈین آف سائنسز اور پھر پرووائس چانسلر رہے۔ آپ نے جرمنی سے کیمسٹری میں ڈاکٹریٹ کی ان کے دوسوپندرہ تحقیقی مقالے امریکہ اورکینیڈا کے موقر تحقیقی رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے کریڈٹ پر تیرہ ملکی اورتین عالمی سطح پرچھپنے والی تصانیف ہیں۔ ان کی نگرانی میں ستر سکالروں نے ایم فل اور اٹھارہ سکالروں نے ڈاکٹریٹ کی۔ آپ نوبل پرائزکمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ کنگ فیصل ایوارڈکی جیوری میں بھی شامل ہیں۔گزشتہ دنوں ان سے انٹرویو میںہونے والی باتیں نذر قارئین ہیں۔ڈاکٹرجمیل انورنے بات چیت کے آغازمیں کہا کہ کالج اوریونیورسٹی میں ایک بنیادی فرق ہے،کالج میں تعلیم دی جاتی ہے جبکہ یونیورسٹی میں علم کی تخلیق کی جاتی ہے اوریونیورسٹیوں کاتخلیق کردہ علم ہی سماج کے کام آتاہے،جس سے سماج ترقی کرتاہے۔ یونیورسٹی میں اساتذہ کا مائینڈ سیٹ کالجوں سے مختلف ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی اساتذہ کے کندھوں پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اسے مستقبل کے اساتذہ، ماہرین تعلیم، دانشور، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، قلم کار، فلم ساز اور مختلف شعبوں کے لئے ماہرین تیارکرنے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان تخلیق کرنے کی ذمے داری بھی سنبھالنا ہوتی ہے۔ اس لئے یونیورسٹی میں اساتذہ کی ریکروٹمنٹ بہت چھان پھٹک کے بعد ہونی چاہئے۔
نوائے وقت :سمسٹر یا اینول سسٹم کس کو بہتر سمجھتے ہیں ؟
ڈاکٹرجمیل انور: دونوں نظام ہائے تعلیم میں کوئی خامی نہیں۔ اصل مسئلہ ان کے عملی اطلاق کاہے۔کسی ملک کانظام تعلیم اگراس ملک کے زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا تو یہ ایک بے فائدہ نظام ہو گا۔ سالانہ سسٹم میں پہلے ششماہی امتحان، پھر نوماہی اور پھر سالانہ امتحان لیا جاتا تھا۔ یہ بچوں کی ذہانت جانچنے کا ایک معیاری طریقہ تھا۔سمسٹر سسٹم میں استاد اور طالب علم کو یکساں محنت کرنا پڑتی ہے یہ ایک آئیڈیل صورت حال ہے۔ بدقسمتی سے استاد اس سسٹم میں زیادہ جانفشانی سے محنت نہیں کرتے، جو کہ اس سسٹم کی روح ہے اور اس میں دوسری سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ نظام ان یونیورسٹیوں میں بہترین چل رہا ہے جہاں فیکلٹی بہترین اور تدریس و تحقیقی کی تمام سہولتیں موجود ہیں۔
نوائے وقت :ہمارے ملک میں ایجوکیشن سسٹم ناکام کیوں ہوجاتے ہیں؟
ڈاکٹر جمیل انور: تعلیمی نظام کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم اس سسٹم کواپنے زمینی حقائق کے مطابق ڈیزائن نہیں کرتے۔جیسے کسی دوسرے ملک کاپوداہماری زمین میں مناسب برگ وبارنہیں لاتا۔یہی مثال تعلیمی نظام کی ہے۔ہم بیرونی ممالک سے تعلیمی سسٹم امپورٹ کرکے اسے یہاں لاگوکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ سسٹم اپنے ملک میں توبڑے زبردست چل رہے ہوتے ہیں۔لیکن ہمارے زمینی حقائق سے برعکس ہونے کی وجہ سے ناکام ہوجاتے ہیں۔
نوائے وقت :پاکستان ریسرچ میں کہاں کھڑا ہے ؟
ڈاکٹر ارشد علی :پاکستان کی تحقیق کے میدان میں صورتحال خاصی مایوس کن ہے۔تحقیق کے لئے پیسہ درکار ہوتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاںملکی بجٹ کا دو فیصد تعلیم پرخرچ کیا جاتا ہے اوراس میں سے صرف عشاریہ سات فیصد ریسرچ پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اتنے بڑے ملک میں یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے۔
نوائے وقت:ہمارے ہاںجو ریسرچ کی جا رہی ہے کیاوہ ملکی ،قومی مقاصدکوسامنے رکھ کرکی جارہی ہے؟
ڈاکٹر جمیل انور:اصل بات یہ ہے کہ ریسرچ کے لئے مختص کیاجانے والاپیسہ بھی درست جگہ نہیں لگ رہا۔ایک ریسرچرکوسوچناچاہئے کہ میری ریسرچ سے ملک کوکیا فائدہ ہوا؟۔ملک صنعتی آلودگی سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے، میں نے بطور کمیسٹری کے ماہر اپنے ملک کو صنعتی آلودگی سے بچانے کے لئے کیا کیا۔ ریسرچ کے لئے رقم پاکستان دیتاہے لیکن سکالرشپ پرباہرجاکرپڑھنے والے سکالر،جس بھی ملک میں پڑھنے کے لئے جاتے ہیں،وہاں کے مسائل حل کرکے، وہاں سے کاغذکاایک پرزہ پی ایچ ڈی، ایم فل یاپوسٹ پی ایچ ڈی کی صورت میں لے آتے ہیںاوراس پرپھولے نہیں سماتے۔ ان کی ڈگری سے ملک کو کیا فائدہ ہوا؟ فائدہ تواس ملک کو ہوا جس کا مسئلہ آپ نے حل کیا۔
نوائے وقت :ہمارے ملک میں کوئلے کی دریافت کوکئی سال گزر چکے ہم نے کوئلے کو سوائے بھٹوں میں جلانے سے اس سے کیا فائدہ اٹھایا؟
ڈاکٹر جمیل انور:وسائل کے لحاظ سے یہ ملک بہترین، جبکہ وسائل کے استعمال کے لحاظ سے یہ ملک بدترین ہے۔اوراس کے ذمے دار تمام ماہرین ہیں۔اس ملک میں کیا نہیں ہے؟ ہوا، پانی، سمندر، دریا، جھیلیں، صحرا، برفباری، ریگستان، کوئلہ، تیل، گیس اور دوسری قسم کی معدنیات سے یہ ملک لبالب ہے۔ لیکن ہم نے سوائے اس ملک کے وسائل ضائع کرنے کے اورکیا کیا؟۔لیکن ریسرچ سے فائدہ اٹھا کر اسے ملک میں سہولتوں کے لئے استعمال کرنے والے حکومتی ادارے گہری نیند سو رہے ہیں۔ انہیں جگانا بہت ضروری ہے۔وائس چانسلرکا کہنا تھا، ہر سائنس دان اور سماجی علم کے ماہرکو اپنے اپنے شعبوں کے مسائل کے حل کے لئے بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہئے۔
نوائے وقت :پاکستانی یونیورسٹیوں کے معیارکو کس نظر دیکھتے ہیں ؟
ڈاکٹرجمیل انور:پنجاب یونیورسٹی میں دنیاکی ایک اہم یونیورسٹی بننے کاپوٹینشل موجودہے،لیکن اس یونیورسٹی کوڈرٹی پولیٹکس مارگئی۔دنیابھرمیں یونین ازم نے اداروں کو مضبوط کیا۔لیکن ہمارے ہاں جہاں جہاں یونین بنی ادارے ہی تباہ ہوئے۔
نوائے وقت:تعلیم میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ پر کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر جمیل انور:پبلک اور پرائیویٹ پارٹنرز شپ پر شدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سسٹم بہت اچھاتھا۔لیکن ہمارے ہاں اسکی پریکٹس نے تعلیم کاکباڑہ ہی کر دیا ہے ۔دراصل ہم ہرنظام سے اپنے لئے کوئی نہ کوئی امرت دھاراتلاش کرلیتے ہیں۔پھراس سسٹم کے جوحصے کمزورہوتے ہیں،ہم ان سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔