کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو اپنا مطلب خود بیان کرتی ہیں۔ بس ان پر ذرا سا غور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے یہ خبریں اپنے اندر پورے کالم کی حیثیت رکھتی ہیں مگر ایک بات پر پورا ’’کالم لکھنا ذرا، مشکل ہوتا ہے۔ یہ سب خبریں نوائے وقت سے لی گئی ہیں۔،،
’’صدر،، زرداری پیپلزپارٹی پارلیمنٹرینز کے صدر خود بخود بن گئے ہیں۔ وہ اس اجلاس میں موجود ہی نہ تھے جہاں یہ فیصلہ کیا گیا۔ پی پی پی پارلیمنٹیرینز کے سیکرٹری جنرل اور ’’صدر‘‘ زرداری کے وزیراعظم پرویز اشرف نے کہا کہ ’’صدر‘‘ زرداری طاقتور پارٹی کے سربراہ بن گئے ہیں۔ وہ بھی اسی طاقتور پارٹی کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ وہ خاموش سوئے ہونگے کہ نوائے وقت میں خبرکے اندر ان کے نام کے ساتھ سیکرٹری لکھا ہوا اور بقیہ میں جنرل لکھا گیا ہے۔ مجھے اپنا یہ معروف جملہ یاد آ گیا ہے کہ سیاستدانوں نے ہمیشہ جرنیل بننے کی کوشش کی ہے اور جرنیلوں نے سیاستدان بننے کی کوشش کی ہے۔ دونوں ناکام ہوئے اور بدنام بھی ہوئے البتہ پرویز اشرف ’’صدر‘‘ زرداری کے زمانے میں بے اختیار وزیراعظم تھے۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ بعض رہنمائوں کی مخالفت کے باوجود زرداری صاحب کو ’’صدر‘‘ بنا دیا گیا۔ ہمیں ان رہنمائوں کے نام بتائیں جنہوں نے پارٹی کے اندر ایسی جرات کی۔؟ اگر وہ طاقتور پارٹی کے صدر ہیں تو کیا بلاول بھٹو زرداری کمزور پیپلزپارٹی کے چیئرمین ہیں تو ’’صدر‘‘ زرداری کیوں ابھی تک اس کمزور پارٹی کے شریک چیئرمین ہیں۔ اس میں کیا خوف زدگی اور کمپلیکس ہے۔؟
……٭……
ریحام خان کی درد ناک گلوکاری کے بعد عمران خان نے پہلے ردعمل کے طور پرکہا ہے کہ یہ گانا سن کر لوگ بہت روئے۔ ریحام خان نے گانا بھی اچھا گایا۔ میں بھی گا سکتا ہوں اور لوگ بھی بہت روتے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ریحام خان نے اپنے ٹی وی شو میں ایک بھارتی شاعر کی غزل گائی تھی۔
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا
ریحام خان غیرت عشق سے آشنا ہے۔ وہ حیرت حُسن سے بھی واقف ہو گی۔ پریشانی یہ ہے کہ ’’دونوں طرف‘‘ ہے آگ برابر لگی ہوئی۔،، گانے گنگنانے کا شوق دونوں میں ہے۔میری تجویز ہے کہ دونوں مل کر گانا گائیں اس ’’دو گانے‘‘ کا بہت چرچا ہوگا۔
’’آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں‘‘
فلم میں کبھی رنجش کے باوجود ہیرو اور ہیروئن مل کر ایکٹنگ کرتے ہیں اور گانا گاتے ہیں۔ ریحام خان ہیروئن نہ سہی سیمی ہیروئن تو ہے۔ میری یہ بھی تجویز ہے کہ وہ سیاسی پارٹی بنائیں میں اس کا نام تجویز کروں گا۔ چودھری عبدالرحمٰن اور عطاء الرحمٰن بھی ریحام خان کی مدد کریں۔
……٭……
نوائے وقت میں ایک سروے رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں بیرونی قرضوں کے بوجھ میں بھارت پہلے نمبر پر پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ فرق انیسں بیس کا نہیں ہے۔ بھارت کے بیرونی قرضوں کا حجم 430 ارب ڈالر سے بڑھ چکا ہے اور پاکستان ساڑھے 66 ۔ ارب ڈالر کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ دونوں ملکوں کو مبارک ہو کہ اس دوڑ میں انہوں نے کسی ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ دونوں ملکوں میں دوستی کے لئے یہ بھی ایک بات بااثر ہو سکتی ہے۔ نوازشریف اور مودی جی فائدہ اٹھائیں۔؟
……٭……
مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی رجب علی کے ڈیرے سے چوری کی بھینس برآمد ہوئی ہے اور وہاں سے ایک شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ مگر پولیس نے میلی آنکھ سے رجب علی بلوچ کی طرف دیکھا بھی نہیں ڈیرہ رجب علی ایم این اے کا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بات اس کے علم میں نہ ہو۔ چوریاں کروانے اور قبضے کروانے یا تھانے میں پکڑوانے اور پھر چھڑوانے کا سارا کاروباریہی وڈیرے کرواتے ہیں جن کے ڈیرے ’’آباد‘‘ رہتے ہیں۔ تھانہ کلچر انہی کی مہربانی سے تبدیل نہیں ہوا اور تبدیلی کی صرف باتیں ہوتی ہیں۔ عمران خان سے ’’متاثر‘‘ ہو کر طلاق کے بعد بھی ریحام خان نے اپنے پروگرام کا نام ’’تبدیلی‘‘ رکھا ہے۔ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ چکی ہے۔
تھانہ صدر سمندری کے چک 443 گ ب سے زمیندار کی قیمتی بھینس چوری ہوئی اور ایم این اے رجب علی کے ڈیرے پرپہنچ گئی۔ وریام نامی نوکر نے خود چوری کی ہوتی تو وہ کہیں اور لے کے جاتا۔رجب علی نے بتایا کہ میرا جرائم پیشہ افراد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر اس نے وریام کو ملازم رکھا ہوا تھا۔ جس کو بھینس چوری کے جرم میں پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ جس کی غیرقانونی سرگرمیوں کا علم بھی اسے نہیں ہے۔ وریام غریب آدمی ہے اسے پولیس نے پکڑ لیا ہے۔ پولیس کا کام صرف غریبوں کو پکڑنا ہے۔ وریام اب پولیس والوں کو اندر کی کہانی بتا دے مگر پھر اسے رجب علی کے ظلم و ستم سے کون بچائے گا۔ رجب علی قومی اسمبلی تو کبھی نہیں بولے اب بولے تو ہیں۔
……٭……
ایک تقریب میں اہل دل انسان منصور الرحمٰن آفریدی سے پہلے عالم صاحب نے نعت پڑھی اور سماں باندھ دیا۔ مجھے نعتیہ شعر تو یاد نہیں ہے۔ اس کا مفہوم سنیں۔
آپؐ بظاہر ہماری طرح ہیں مگر ہم آپؐ کی طرح نہیں ہیں،،
اس شعر میں اس زمانے کا پورا المیہ بیان کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد آفریدی صاحب نے تقریباً اسی موضوع پر گفتگو کی اور بتایا کہ احیائے اسلام کس طرح ہو سکتا ہے۔
یہ ارتقائے انسانیت کی بات ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’ایک وقت آئے گا‘‘ میرا پیغام گھر گھر پہنچے گا۔ دہشت گردی ختم ہو گی اور سلامتی کا آغاز ہو گا۔ شاید وہ وقت آنے والا ہے۔؟