دنیا اختلافات سے بھری پڑی ہے۔ ہر کسی کو اختلاف ہوتا ہے، کسی کو کم اور کسی کو شدید۔ اختلافات کئی طرح کے ہوتے ہیں کچھ ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں، کچھ سرکاری، قومی اور بین الاقوامی سطح کے، کچھ اختلافات خوامخواہ کے ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے ایک مشہور اینکر پرسن نے اپنے شاگردوں کو کامیابی کا جو پہلا اصول سکھایا وہ یہی تھا ”خومخواہ کا اختلاف“ ۔ فرمانے لگے بیٹا کامیابی اسی میں ہے کہ ایک اچھے خاصے لاجیکل پوائنٹ پر جب کوئی اختلاف نہ کر سکو تو بھی اس پر تنقید کرو۔ ہار نہ مانو مجھے اختلاف ہے کہہ کر اگلی بات پر آ جا¶۔ ایک کونے سے کسی دانشمند نے کہا یہ کیسا اختلاف ہے۔ میں نے تنقید کا حق استعمال کرتے ہوئے کہا کہ اسے خوامخواہ کا اختلاف کہتے ہیں۔
آواز سامعین تک محدود رہی۔ پہنچ جاتی تو یقیناً استاد محترم اس سے بھی خوامخواہ اختلاف کر کے مجھے خوامخواہ سزا کے طور پر کھڑا رکھتے ۔۔۔ ویسے اختلاف سے بھاگنا نہیں چاہیے اسے ضرور کرنا چاہیے لیکن خوامخواہ نہیں کرنا چاہیے۔ اختلافات زندگی کا حُسن ہوتے ہیں۔ یہ اتنے حُسین ہوتے ہیں کہ یکسر کسی کی زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ اس کی سوچ اور فکر کو ایک نئی راہ پر ڈال کر اس کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیتے ہیں۔ یہ اتنے پاور فُل ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مجموعی زندگیوں میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی لے آتے ہیں۔ سرکار نے فرمایا میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔ تنقید اختلاف کا حصہ ہے، تنقید ذہنی افق کو وسیع کرتی ہے۔ تنقید علمی تحفہ ہے۔ تنقید اور اختلاف سے انسان خود کو دریافت کر سکتا ہے۔ تنقید سے ایک گفتگو کے کئی پہلو سامنے آتے ہیں اور انسان کے اندر تخلیقی سوچ کو پیدا کرتی ہے۔ تنقید اور اختلاف کو اگر تحمل سے برداشت کیا جائے تو خود اعتمادی کی دولت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔
مشاورت کا حکم بھی اسی لیے دیا گیا کہ جب مشورہ کیا جاتا ہے تو اس میں بہت سے لوگ اختلاف بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے بعد میں کسی اچھے نتیجہ پر بھی پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اختلاف کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہم تذلیل کو بھی اختلاف رائے کا نام دے دیتے ہیں۔ ہم سر عام بے عزتی کر کے کہتے ہیں یہ تنقید ہے۔ اختلاف رائے تو نعمت ہے اور تنقید ایک علمی تحفہ ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ہم سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اختلاف ہماری زندگیوں میں کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ اختلاف کیسے کیا جائے۔ تنقید کو کیوں کر برداشت کیا جائے۔ تنقید اور تذلیل میں کیا فرق ہے ۔ اس لیے کہ یہ تمام چیزیں ہماری تربیت اور معیار کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں تخلیق میں جمود ہے اس لیے کہ علمی موضوعات ہوں یا دوسرے معاملات ہم اس پر اختلاف رائے کرتے ہیں اور پھر کرتے ہی چلے جاتے جس کا مقصد دوسرے کو زچ کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ تعمیری اختلاف کا حُسن یہ ہے کہ اس کا انجام کسی ایک نقطے پر اتفاق پر ہوتا ہے۔
اگر اتفاق نہیں بھی ہوتا تو وہ سوچ کے کئی نئے اُفق سامنے لے کر آتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اول تو تنقید کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ خود اختلاف کے حق کو انجوائے کیا جاتا ہے لیکن دوسرے کو یہ حق نہیں دیا جاتا۔ ہمارے ہاں ایک اور طریقہ بھی رائج ہے۔ ہم اختلاف کر کے پھر اس کو دوسرے پر مسلط بھی کرنے لگتے ہیں۔
اختلافات نظریات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ مقلدانہ ذہنیت بھی ہے۔ جو جس نقطے پر کھڑا ہے وہ اس پر ڈٹ جاتا ہے۔ عموماً شخصیت پرستی بھی اس کی وجہ ہے۔ اکثر دوست احباب کے درمیان کسی موضوع پر اختلاف ہو جاتا ہے۔ وہ اس اختلاف کو شخصیات سے منسوب کر اس کے تمام دوسرے پہلوں پر سوچ کے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کوئی دلیل کوئی معنی نہیں رکھتی۔ لیکن ایک صاحب علم کے لیے سب سے اہم چیز تبادلہ خیال ہوتی ہے، تنقید ایک موضوع ہوتا ہے یہ دو شخصیات کے درمیان صرف ڈسکشن ہی تو ہے۔ جب شخصیات کے اثر اور اپنے مخصوص نظریات سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو انسان کتنا آزاد ہے۔ وہ آزادانہ غور و فکر کر سکتا ہے۔ اور اس فکر سے ترقی کے تمام راستے کھلتے ہیں۔ یہ آزادانہ فکر تنقید مانگتی ہے۔ یہ چاہتی ہے اس کے ساتھ ہر کوئی اختلاف کرے۔ اور پھر یہ سوچ ایک رہنما سوچ بن جاتی ہے۔ بصورت دیگر انسان وہی سوچتا ہے جو اس پر مسلط ایک شخصیت سوچتی ہے اور وہ تمام عمر وہی سوچتا چلا جاتا ہے۔ وہ کسی دلیل اور اختلاف کو نہیں مانتا۔ اس کی بنیاد پروہ خوامخواہ کے اختلافات سے نہ صرف اپنا وقت برباد کرتا بلکہ دوسروں کو بھی اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ تنقید اور اختلاف کو ایک اصول کی نظر سے دیکھنا چاہیے نہ کہ اس کو ذاتی سمجھا جائے یا شخصی۔ تنقید کا موضوع اتنا دلچسپ ہے کہ اسے نصاب کا حصہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ جو لوگ تنقید برداشت نہیں کرتے وہ اپنے اندر چھپی صلاحیتیوں سے کبھی آشنا نہیں ہو سکتے۔ تنقید اجتہاد کے راستوں کو بھی کھولتی ہے۔ جہاں اجتہاد رُک جاتا ہے وہاں ترقی رُک جاتی ہے۔ لیکن اس کے لیے تنقید کا تنقید ہونا ضروری ہے نہ کہ تنقیص۔ تنقید علمی اور منظقی تجزیہ ہے جبکہ تنقیص جسے خوامخواہ کا اختلاف بھی کہا جا سکتا ہے، کا سارا انحصار عیب جوئی اور الزامات تراشی اور دوسرے کی تذلیل پر ہوتا ہے جس کا حاصل باہمی بغض و عناد اور منافرت ہے جس سے معاشرے میں فتنہ و فساد اور انارکی کا راستہ کھلتا ہے۔ ہماری تربیت جو خوامخواہ اختلافات پر مبنی اس کو آنے والی نسلوں میں منتقل نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ہمارے معاشرے کو ایک دوسرے کی رائے کا احترام سکھانے کی ضرورت ہے۔ اختلاف کے لیے بلند کی جانے والی آواز دلیل ہو نہ کہ گالی۔
تنقید کو مسکرا کر ویلکم کرنے سے ہمارے اندر برداشت کے رویوں کو بھی فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اختلافات کے ساتھ دوسروں کو قبول کرنا سیکھنے اور سکھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سب ممکن ہے جب ہم اپنے اپنے خول سے باہر نکلیں گے۔ یہ خول مخصوص نظریات اور شخصیات کا خول ہے جو ہم پر قابض ہو چکا ہے۔ اس کے بعد جو اختلافات اٹھیں گے وہ ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ورنہ خوامخواہ کی تنقید اور اختلافات تخریب کو جنم دیتے رہیں گے۔