”دہشت گردی‘ جرائم اور کرپشن“

”قوم کی حمایت سے دہشت گردی‘ جرائم اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر امن و انصاف کی راہ ہموار کریں گے“ .... جس مرد قلندر نے بے باکانہ لب و لہجے میں اس عزم کا اظہار کیا۔ اسکے آغاز میں انشاءاللہ کا لفظ بھی استعمال کیا۔ ملک میں امن و امان کی ناقابل فخر صورتحال اور کرپشن سے لتھڑے ہوئے معاشرے کو آلائشوں سے پاک کرنے میں قومی سلامتی کا جو ادارہ ضرب عضب کے نام سے سربکف ہو کر سرگرم عمل ہے۔ یہ الفاظ اسی ادارہ کی مایہ ناز قیادت کی زبان سے ادا ہوئے اور اس عزم کا اظہار عساکرِ پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے اپنے دورہ¿ گوادر کے دوران میں بلوچ عمائدین سے ملاقات میں کیا۔ وطن و قوم کے تحفظ کا حلف اٹھانے والے اس بہادر اور جانباز مردِ مجاہد نے لگی لپٹی بغیر واشگاف الفاظ میں ان محرکات کی نشاندہی کی ہے۔ جن کے نتیجے میں ملک بے چینی اور اس میں بسنے والے عوام خوف و ہراس‘ عدم تحفظ اور غربت و افلاس کی اتھاہ گہرائیوں کا شکار ہیں۔ قوم کے کروڑوں مفلس و بے بس عوام کی بھرپور حمایت ان محافظین وطن کو حاصل ہے جو ضرب عضب کے تحت دہشتگردی اور جرائم کے قلع قمع کرنے کیساتھ ساتھ‘ کرپشن کو بھی جڑ سے اکھیڑ کر نیست و نابود کرنے میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ درحقیقت عسکری قیادت اس حقیقت کو اچھی طرح جان گئی ہے کہ کرپشن کے ناسور نے قوم و ملک کو جرائم اور دہشتگردی کے الا¶ میں جھونک رکھا ہے۔ ان مہلک اور امن و امان کو نیست و نابود کر دینے والے محرکات کی تہہ تک پہنچنے کیلئے جنرل راحیل شریف نے جس نظرِ عمیق کی حامل شخصیت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اسکی مثال موجودہ قومی سطح کی سیاسی قیادت میں کم کم ہی ملے گی۔ اگر دہشتگردی‘ جرائم اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے تو اس سے انکار ممکن نہیں ہو گا کہ پاکستان کے نکھرے ستھرے معاشرے کو سیاسی اور اخلاقی اقدار سے بیگانہ کرنے میں کرپشن نے مرکزی کردار ادا کیا۔ کرپشن نے وبا کی صورت اختیار کی تو اس کی کوکھ سے جرائم نے جنم لیا اور عساکرِ پاکستان کی طرف سے جاری ضربِ غضب سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی کہ بعض جگہ کرپشن میں ملوث عناصر نے دہشتگردی کو پھلنے پھولنے کے مواقع مہیا کئے۔ ملک میں کرپشن کی ابتداءمقتدر حلقوں ہی کی طرف سے ہوئی۔ ایسے عناصر کی طرف سے غریب ملک اور قوم کا سرمایہ ناجائز ذرائع سے بیرون ملک منتقل کر کے وہاں اثاثے بنانے سے ہوا اور گذشتہ دو دہائیوں سے ایسے متمول عناصر کی اس قسم کی سرگرمیوں کی داستانیں زبان زدِعام ہونا شروع ہو گئیں اور اس حقیقت سے کسی صورت انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسی کرپشن کے نتیجے میں میدانِ سیاست کے لقندروں نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ملکی دولت کی لوٹ مار میں جی بھر کے حصہ لیا اور ہوسِ زر کی تشنگی بجھانے کیلئے کرپشن کے سرمائے کو ناجائز ذرائع سے بیرونی ممالک منتقل کر کے اپنے اثاثے بنائے۔ اسی کرپشن کے نتیجے میں ملک کنگال اور قوم قلاش ہو گئی۔ اسکے کروڑوں عوام خطِ غربت سے نیچے کی زندگی بسر کرنے لگے۔ ستم باعث ستم بات یہ کہ ایسے گھنا¶نے کاروبار میں مگن عناصر نے باہمی گٹھ جوڑ سے خود کو جمہوری لبادے میں ڈھانپنے کی راہیں اپنا لیں مگر یہی وہ کرپشن ہے جس کا گٹھ جوڑ عساکر پاکستان کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے دہشتگردی اور جرائم سے توڑنے کی قوم کو نوید دی ہے اور کہا ہے کہ اس گٹھ جوڑ کو توڑ کر امن و امان کی راہ ہموار کریں گے۔

اسے حسنِ اتفاق ہی کہہ لیجئے کہ جس روز جنرل راحیل شریف کی طرف سے دہشتگردی‘ جرائم اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑ کر امن و امان کی راہ ہموار کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا۔ اسی دن وفاقی وزیر خزانہ سنیٹر اسحاق ڈار نے تاجروں کو مراعات دینے کا پیکج اور مالیاتی اداروں (محفوظ ٹرانزیکشن) بل 2016ءقومی اسمبلی میں پیش کر دیئے تاجروں اور سرمایہ داروں کو دیگر جو مراعات دی گئیں وہ تو دی گئیں‘ اس حوالے سے اہم ترین مراعات میں سرفہرست کرپشن سے کمائے گئے کالا دھن کو سفید کرنے کی سکیم کا اعلان ہے جو لوگ ٹیکس نیٹ میں نہیں وہ صرف ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے اپنا پانچ کروڑ روپے کا کالا دھن سفید کر سکیں گے گویا صرف ایک فیصد کے مساوی ٹیکس سے ان کا کرپشن سے کمایا گیا پانچ کروڑ روپے قانونی یا جائز کمائی قرار پائیں گے۔
انکے اپنے ذاتی اکا¶نٹ کی رقوم ”فور فگر“ سے زیادہ نہیں بڑھتی۔ سرمایہ کی رقوم بڑھتی ہے تو ان بے نام اکا¶نٹس ہولڈروں کی جن کے نام کرپشن کے بھاری سرمایہ سے اکا¶نٹس کھلے ہوتے ہیں۔ حقیقت میں ایسے ہی کرپشن سے کما کر چھپائے گئے کثیر سرمایہ کو قانونی بنانے کیلئے حکومت نے ایمنسٹی سکیم ٹیکس کی اختراع تراشی ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ایوان اقتدار کے مکینوں کی اس فیاضانہ حکمت عملی سے اقتدار کے ایوانوں کی غلام گردشوں تک رسائی حاصل کرنےوالا مخصوص طبقہ کرپشن کی کمائی پر ایک فیصد ٹیکس ادا کر کے اپنے دامن کے دھبوں کو صاف کرنے کا خواب پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیگا۔
جب ملک کے کرپٹ لوگوں کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد وہی طبقہ ہوتا ہے جو ملکی دولت کی لوٹ مار میں اخلاقی حدود کو پار کر گیا اور کرپشن کی کمائی ہی نے معاشرے سے اخلاقی اقدار اور جمہوری سیاسی روایات کو بیخ و بن سے اکھاڑ کر رکھ دیا اور نوبت بہ اینجا رسید کہ کرپشن کی دلدل میں لتھڑے لوگوں میں ہم وطن مرد و زن کے بھوک اور ننگ میں مبتلا ہونے کا احساس ہی مٹ گیا کرپٹ لوگوں نے اپنے عیبوں پر اٹھنے والی انگلیوں سے خود کو محفوظ کرنے کیلئے جرائم کی دنیا کے لوگوں سے راہ و رسم پیدا کرنے کا راستہ اپنایا۔ جس کے نتیجے میں معاشرہ میں جرائم نے سر اٹھا لیا اور دہشت گردی کیلئے فضا ہموار ہوئی۔ یہی وہ حقائق ہیں جن کے محرکات کی تہہ تک پنپنے کے بعد عسکری قیادت نے امن و امان کی بحالی کو اولین ترجیح قرار دیا ہے اور اس مقصد کیلئے دہشتگردی‘ جرائم اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کا دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا اور اس عزم پر عمل پیرا ہونے کا عمل صوبہ سندھ میں زور و شور سے شروع ہوا۔
عوام کی دولت لوٹنے والے یہی عناصر جمہوریت کی آڑ میں مجبور و بے بس ملکی عوام کیلئے پیرانِ تسمہ پا بنے رہیں گے۔ جنہیں کرپشن کی پیداوار اشرافیہ نے دیدہ دانستہ زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم کر کے حواس باختہ کر رکھا ہے اور یہ حواس باختہ کروڑوں عوام‘ دن رات خدا کے حضور دست بدعا رہتے ہیں کہ دہشت جرائم اور کرپشن کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کیلئے سیاسی اور عسکری قیادت مروجہ اصطلاح کے مطابق ایک صفحہ پر ہوں۔

ای پیپر دی نیشن