جاوید ہاشمی تبدیلی کے قافلے سے بچھڑ کر ابھی تک مسلم لیگ ہاﺅس نہیں پہنچ پائے۔ ادھر شاید ابھی تک ان کے لئے دروازہ بھی نہیں کھولا گیا۔ پچھلے دنوں ان کی جیل میں لکھی ایک برس کی (جولائی 2006 تا جولائی 2007) ڈائری شائع ہوئی ہے۔ ”زندہ تاریخ“ کے نام سے پونے چھ سو صفحات پر مشتمل اس کتاب میں پڑھنے والوں کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے اور شاید حسن اتفاق بھی، امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ہارنے والی ہیلری کلنٹن کی آٹو بائیوگرافی کا نام بھی یہی ”زندہ تاریخ“ ہے۔ ”لونگ ہسٹری“ کا اردو ترجمہ زندہ تاریخ ہی کیا گیا ہے۔ اب آپ پوچھ سکتے ہیں، کیا جاوید ہاشمی ہارے ہوئے سیاستدان ہیں؟ اگر آپ کسی سیاستدان کی کامیابی کی منزل صرف اسمبلی اور سینٹ سمجھتے ہیں تو جاوید ہاشمی یقیناً بہت کامیاب ہیں۔ لیکن اس کتاب میں ایک سیاسی کارکن کی حدود اور جماعتی سربراہ کے اختیارات اور حیثیت دیکھ کر یہ کامیابیاں اور ناکامیاں بے معنی سی لگنے لگتی ہیں۔ حساس دل و دماغ والے بندے کے لئے اس کتاب میں بڑے دھچکے ہیں۔ اگرچہ سوشل میڈیا نے تقریر کو تحریر پر مقدم کر دیا ہے، پھر بھی اس کتاب کی کچھ اپنی اہمیت ہے۔ چند ماہ پہلے جناب مجیب الرحمٰن شامی کے ایک عزیز کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے جاوید ہاشمی ملتان سے لاہور پہنچے ہوئے تھے۔ ہم بھی وہاں موجود تھے۔جنازہ پڑھ کر لوگ مسجد سے باہر نکل رہے تھے۔ جاوید ہاشمی میاں شہبازشریف کے پریس سیکرٹری شعیب بن عزیز کودیکھ کر جلدی سے ان کی طرف بڑھے۔ اب وہ لگے ان سے کان میںکھسر پھسر کرنے میں نے پیچھے سے آواز لگائی۔ ”آپ اونچی بھی بول سکتے ہیں۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ کہاں اور کیا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں۔ جاوید ہاشمی کی یہ کتاب بھی وہی، چڑیوں ہاتھ سندیسے کا گوں ہاتھ سلام، والا دکھائی دیتا ہے۔ اس کتاب میں میاں برادران کے لئے اظہار محبت سے زیادہ اظہار وفاداری ہے۔ بیسویں اکیسویں صدی ملکوں قوموں کی آزادی کی صدی سہی، آج چند ایک کو چھوڑ کر سبھی ملک آزاد ہیں لیکن سچی بات تو یوں ہے کہ دراصل آزاد ملک صرف وہی ہیں جنہیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ویٹو کی پاور حاصل ہے۔ اسی طرح آزاد پاکستان میں کسی حد تک آزاد صرف ہماری اہم سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہی گنے جا سکتے ہیں۔ باقی بیچارے سارے اپنی غلامی ہی پہ نازاں دکھائی دیتے ہیں۔ پھر ان جماعتی سربراہوں کو انی جماعتوں میں آزاد مرضی رکھنے والے اور قدرے آگے چلنے کی کوشش کرنے والے بندے ہر گز پسند نہیں یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب ملک میںحسبہ بل اور حدود بل کا تذکرہ بڑے زور و شور سے جاری تھا۔ مجلس عمل نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ ان دنوں حافظ حسین احمد ممبر قومی اسمبلی تھے۔ انہوں نے جھٹ سے اپنی نشست سے استعفیٰ دے دیا۔ ان کی یہ تیزیاں اور پھرتیاں ان کے جماعتی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو ہر گز اچھی نہیں لگیں۔ ان کا اس پر تبصرہ یوں تھا۔ ”یہ تو امام سے پہلے سلام پھیرنے والی بات ہے،، پھر اس کے بعد یوں ہوا کہ حافظ حسین احمد کو آگے چلنا تو درکنار، جماعت میں پیچھے بھی نہیں چلنے دیا گیا لیکن حافظ حسین احمد خوب سمجھتے ہیں کہ موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ انہیں پھر کبھی ٹکٹ نہیں ملا۔ لیکن وہ اسی تنخواہ پر کام کئے جا رہے ہیں۔ یہ جماعتی سربراہ اپنے کارکنوں کو اپنی حیثیت ہمیشہ یاد دلاتے رہتے ہیں۔ ایک جیالے نے جب محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنی جماعتی خدمات گنوائیں تو اس پر محترمہ کا جواب بڑا دلچسپ تھا۔ ”تو پھر آپ کو پارٹی کا مشکور ہونا چاہئے کہ آپ کو پارٹی کیلئے کام کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔“ ادھر جاوید ہاشمی بھی کچھ ایسے ہی حالات بیان کرتے ہیں۔ جیل سے جاوید ہاشمی میاں نوازشریف سے گلہ گزار تھے کہ آپ نے ایئر کریش میں میری بھانجی کے فوت ہونے پر مجھ سے افسوس نہیں کیا جبکہ سوائے پرویز مشرف کے اپنوں‘ پرایوں سبھی نے میرے ساتھ اظہارتعزیت کیا ہے۔ میاں صاحب اس وقت ناروے سے بول رہے تھے۔ کہنے لگے ”بات پرانی ہو گئی تھی اس لئے میں نے تعزیت نہیں کی۔“ یہاں جاوید ہاشمی اپنی قدروقیمت سے خوب آگاہ لگتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے اپنی کتاب میں ایسا بہت سا مصالحہ ڈالا ہوا ہے جو فقط ”ان“ کو سنانے کیلئے ہے۔ جانثار اختر نے یہی بات کہی ہے
اشعار میرے یوں تو زمانے کیلئے ہیں
کچھ شعر فقط ان کو سنانے کیلئے ہیں
جاوید ہاشمی کہتے ہیں ”رات میری نوازشریف صاحب سے بات ہو گئی۔ میں نے انہیں کہا میاں صاحب آپ نے مجھے مسلم لیگ کا صدر بنایا۔ مجلس عاملہ کے ارکان کے علاوہ تمام عہدیداروں کو تبدیل کرنے کا اختیار مجھے حاصل ہو گیا ہے مگر میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ آپ کے احکامات کے علاوہ عہدیداروں کی اکھاڑ پچھاڑ میں ملوث ہوں۔ میں آپ کے دیئے ہوئے اختیارات کا امین ہوں اور امانت میں خیانت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔“ ان سطور سے پہلے انہوں نے اپنے ڈائری کے صفحے میں لکھا ”مجھے سرانجام خان نے بتایا کہ آپ کی حیثیت کو ختم کرنے کیلئے چار سینئر نائب صدر کے عہدے گھڑے گئے ہیں۔“ میں نے انہیں جواب دیا کہ یہ پارٹی بچانے کا مرحلہ ہے۔ میری سیاسی حیثیت کس ایک کے سامنے کچھ حیثیت نہیں۔“ پھر جاویدہاشمی ایک اور مقام پر یہ لکھنا بھی نہیں بھولتے کہ ”میرے ہاتھ پر سرے سے وزیراعظم بننے کی لکیر ہی نہیں۔ واہ! بتایا جا رہا ہے کہ ہم اپنی مرضی کے خواب دیکھنے کے بھی متحمل نہیں۔“ اب ہمارے ذہین فطین جاوید ہاشمی داد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے قیصدے میں ”نمرود“ کو بھی ہرگز بھولے نہیں۔ آپ نے میاں شہبازشریف کیلئے ایک لمبی کہانی لکھی ہے۔ ایک نوے سالہ ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر سید عباس گردیزی اپنی 65 ماڈل کھٹارا سی گاڑی میں جاوید ہاشمی کے ہاں آتے ہیں اور انہیں زبردستی اپنی اے سی سے بغیر گاڑی میں بٹھا لے جاتے ہیں۔ اس موقع پر جاوید ہاشمی انہیں بہتر کہتے ہیںکہ میری ٹھنڈی گاڑی میں چلتے ہیں‘ لیکن وہ ان کی ایک نہیں سنتے۔ وہ انہیں سیدھے ملتان بوہڑ دروازے لے جاتے ہیں۔ یہاں ایک چلڈرن پارک میاں شہبازشریف کی پالیسی کی وجہ سے فروخت کر دیا گیا تھا۔ اس پر یہ بوڑھا سید زادہ پریشان تھا کہ اب بچے کہاں کھیلیں گے۔ اگلے روز میاں شہبازشریف کا ملتان دورہ تھا۔ وہ اس سلسہ میں ملاقات کیلئے وقت چاہتے تھے۔ اب اگلے دن میاں شہبازشریف بوہڑ دروازے پہنچے۔ مقامی مسلم لیگیوںکی مخالفت کے باوجود وہ پارک بچ گیا۔ وافر فنڈز بھی مل گئے۔ وہ اب ملتان میں بچوں کی مرغوب ترین جگہ ہے۔ گوجرانوالہ میں بھی ایک ایسی ہی صورتحال موجود ہے۔ کاش! گوجرانوالہ میں بھی کوئی سید عباس گردیزی ہوتا‘ لیکن نہیں‘ اس کیلئے ایک جاوید ہاشمی بھی تو چاہئے تھا۔