ہر وہ بیا ن ،الفاظ جو اُمید کی جوت جگائے۔ روشنی کی کِرن دِکھائے ہمیں کیا پوری قوم کو اچھا لگتا ہے کیونکہ حالات و واقعات کی گھمبیرتا اتنی بڑھ چُکی ہے کہ چند سطروں پر مبنی ریمارکس سے قوم مہینوں دل بہلاتی رہتی ہے۔ کلیدی مناصب پر فائز ہر آنے والے سے توقعات باندھنا اور پھر جانے والے سے وابستہ امیدوں کے بر نہ آنے پر مایوس ہونا اِس قوم کی نفسیاتی عادت نہیں بلکہ واقعتا حالات کے سدھار کی تمنا بہت مضبوط یقین میں بدل جاتی ہے ہر مرتبہ اب بھی ”قابل احترام چیف جسٹس“ آف پاکستان کا خطاب سنا تو بھروسہ، اعتماد کی لہروں نے جوش مارا کہ ”عوام کو مایوس نہیں کریں گے“۔ اب کی مرتبہ عوامی دل نے گواہی دی کہ صبح طلوع ہونے والی ہے جب سُنا کہ ”وعدہ کرتا ہوں، مفاد، دباو اور خوف کا شکار ہوئے بغیر انصاف کریں گے“ عرصہ دراز سے محض ریمارکس بُھگت کر فارغ ہونے والی قوم کا وجدان برابر گواہی کے عالم میں ہے کہ کچھ نیا ہونے کو ہے کم نہیں بہت کچھ ماضی کے المناک ابواب متروک ہونے جارہے ہیں کیونکہ دل چیر کر کِسی نے نہیں دیکھا الفاظ کا چناو¾، جذبات کی صداقت سب کچھ عیاں کر دیتی ہے اِسی لیے دماغ کی تپش نے سکون کا سانس لیا جب پڑھا کہ" آپ دیکھیں گے شفافیت کیا ہوتی ہے" ۔
ترجمہ: "بے شک اللہ عدل و احسان کا حکم دیتا ہے "۔ (سورة نحل 90-14)
ایک معزز جج نے فرمایا کہ سچائی تک جائیں گے۔ سربراہ بڑی عدالت کے بڑے الفاظ بولتے ہیں، عدل اپنے فیصلوں سے بولتا ہے ۔ "اعلٰی عدلیہ" کِسی ایک یا چند قابل احترام ججز کا فورم نہیں ہر معزز جج مکمل عدالت ہے عدالت عظمٰی ہے اور جب بات ہو بڑی عدالت کے بڑے جج کی کہ" دنیاوی فائدے کے لیے ابدی انعام کو قربان نہیں کرسکتا" تو لہبحے کی مضبوطی تیقن" اللہ تبارک و تعالی "کے فرمان کو یاد دلا دیتا ہے۔
ترجمہ: "جس کو منصب قضا پر فائز کیا گیا وہ گویا بغیر چھری کے ذبح کر دیا گیا" ۔
"قضائ" نہایت حساس ذمہ داری، اس میں ذرا سی کوتاہی یا بد نیتی کے باعث فرد کی زندگی پر پڑنے والے ہمہ گیر اثرات کا روپ دھار کر خاندانوں قبیلوں کی تاریخ تک تبدیل کر دیتے ہیں اور ملکی قومی سطح کے فیصلے تو زیادہ دور اندیشی، باریک بینی کے متقاضی ہوتے ہیں ہمیں خوشی ہے کہ قوم کی واحد اُمید صورتحال کی نزاکتوں، حقائق اور اپنے فرائض بابت بخوبی آگاہ و متحرک ہے ۔یہ کسی "فرد واحد" یا گروہ کی دوسرے فرد واحد یا " گروہ" کے خلاف ذاتی لڑائی یا پیشہ وارانہ چپقلیش نہیں "کرپشن "پورے پاکستان کا نمبر ایک مسئلہ اور موجودہ تمام مصائب، بحرانوں کی جڑ ہے ۔ سبھی شکوہ کناں ہیں خاتمہ چاہتے ہیں حت¾ی کہ "صدر مملکت" اور انسداد بد عنوانی کے لیے مصرف ِکار اداروں کے سربراہان بھی اِس کے خلاف عوام کو متحد ہونے اورکرپٹ عناصر کا سماجی بائیکاٹ کرنے کا واشگاف پیغام دے چُکے ہیں سب باتوں پر بھاری صرف ایک درخواست کہ قانونی طور پر ممکن بنا دیں کہ آج کے بعد غبن، کرپشن، اختیارات کے غلط استعمال کے مقدمات کو سیاسی نہیں ہونے دینا کرپشن کو فروغ ملنے ذمہ داران کو سزائیں نہ ہونے کی یہی وہ بنیادی وجوہات تھیں کہ سیاست نے ہر چیز، معاملے طبقے، اداروں کو سیاست زدہ کر کے اپنے لیے جائے امان ڈھونڈی۔ انسان خطا کا پتلا ناسمجھ ہے زندگیوں میں نشیب و فراز آتے ہیں، اختلافات اُبھرتے اور ختم ہو جاتے ہیں ان اختلافات کے انسداد کے لیے" رب کریم ذی شان" نے نظام عدل وضع کیا ۔ عدل سے مقصود معاشرہ کے تمام عناصر کو اپنی اپنی متعینہ حدود میں رکھنا اور نظمِ زندگی کو چلانا ہے ۔
ترجمہ ”: اے داﺅد ہم نے زمین پر خلیفہ بنایا ہے لٰہذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلے کر۔"
یہ آیت مبارکہ بتاتی ہے کہ خلیفہ ءامام کا اولین کام لوگوں کے درمیان درست فیصلے کرنا ہے ۔ معاشرے کے مختلف مفادات کے حامل طبقات کے باہم ٹکرا¶ کی صورت میں متوازن، مبنی برانصاف فیصلہ کرنا بھی عدل ہے فیصلہ کرنے والا عادل یا قاضی کہلاتا ہے۔ قضاءاسلامی مملکت کی بنیادی کنجی ہے میرٹ پر اور شفاف طریقے سے فیصلے قوموں کی تقدید بدل دیتے ہیں لفاظی یا تقریریں نہیں وہ بھی جب "ہماری اشرافیہ" کی ہوتی ہیں۔
" عالمی اعزاز "
جنرل راحیل شریف "39"ملکی اسلامی فوجی اتحاد کے سربراہ بن گئے ہم نے پچھلے ہفتے کے کالم میں جنرل کی سربراہی سنبھانے کی خبر دے دی تھی۔ ایک دو ملک نہیں اکٹھے39"ممالک "نے اِس سربراہی کے لیے "جنرل راحیل شریف "کو منتخب کیا ۔ لمحہ موجود کی بہت نازک اور تنہائی والی صورتحال میں یہ انتخاب پاکستان کے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہے وہاں 39"ممالک "بھی خوش قسمت ہیں کہ بہتر ین حربی صلاحیتوں اور پیشہ وارانہ نظم کے مالک" جنرل" کی اہلیت سے دشوار حالات پر قابو پا سکیں گے۔
”عوام کو مایوس نہیں کریں گے“
Jan 09, 2017