اسلام آباد(آن لائن) عالمی سطح پر ٹیکس چوری کے خلاف شروع کریک ڈاو¿ن کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت ایک ایسے ایمنسٹی پیکج پر کام کررہی ہے جو ایک فرد کو اجازت دے گا کہ وہ اس کی مدد سے اپنی آف شور اور آن شور کمپنیوں کو قانونی شکل دے سکے۔مذکورہ ایمنسٹی سکیم پاکستانیوں کی جانب سے اپنے آف شور فنڈز کو ملک واپس لانے کیلئے آسان طریقے کے طور پر دیکھی جارہی ہے۔ آرگنائزیشن آف اکنامک کارپوریشن اینڈ ڈوپلمنٹ (او ای سی ڈی) کے 104 اراکین 2017 میں ایک خود ساختہ نظام کے تحت ایک ایسے ریکارڈ کا تبادلہ کرنے کا آغاز کردیں گے، جو عالمی سطح پر ٹیکس چوروں کے خلاف مربوط کریک ڈاو¿ن کا حصہ ہے تاکہ ٹیکس نادہندہ افراد کو بے نقاب کیا جاسکے۔ایک سینئر ٹیکس افسر نے بتایا رواں سال میں پاکستانیوں کے فنڈز بیرون ملک موجود ہونے کے حوالے سے پاکستان کو معلومات ملنا شروع ہوجائیں گی اور جواب میں جولائی 2018 سے پاکستان کی جانب سے ایسے غیر ملکیوں کی معلومات، جن کا پیسہ یہاں کے بینکس میں موجود ہے، تبادلے کا آغاز ہوجائے گا۔ غیر رہائشی افراد کی تفصیلات کے تبادلے کیلئے جولائی 2017 سے جون 2018 کی مدت مقرر کی گئی ہے۔اسی طرح مذکورہ مدت کے دوران 105 ملکوں میں موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات پاکستان کو فراہم کی جائیں گی۔ متوقع ایمنسٹی سکیم کی مدد سے کم سے کم جرمانے کی ادائیگی سے لوگ بیرون ملک موجود اپنے کالے دھن کو سفید کرسکیں گے۔ خیال رہے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے فیڈریشن آف پاکستان چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے 40 ویں ایکسپورٹ ایوارڈز تقریب کے دوران خطاب کرتے ہوئے اشارہ دیا تھا کہ آف شور اور آن شور کمپنیوں کے مالکان کے اثاثوں کو ٹیکس دہارے میں لانے کیلئے ایمنسٹی سکیم لائی جاسکتی ہے۔15 دسمبر 2016 کو منقعد ہونے والی تقریب میں وزیراعظم نے اس حوالے سے تجاویز بھی طلب کی تھیں۔جس کے بعد تجویز کی جانے والی دو ایمنسٹی اسکیموں کے مطابق جن کو اپنی دولت ظاہر کرنے کا کہا جائے گا انھیں 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایف بی آر کی جانب سے 6 ماہ کیلئے متعارف کرائی جانے والی ایک سکیم کو 2 ماہ کیلئے 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلے دو ماہ میں اپنی منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد ظاہر کرنے والے افراد کو ان کے اثاثوں کا 5 فیصد ادا کرنا ہوگا، جبکہ آئندہ 2 ماہ کیلئے 7 فیصد اور آخری دو ماہ میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔اس کے علاوہ اس حوالے سے وزیر خزانہ کی جانب سے بھی ایک سکیم تجویز کی گئی ہے جس کی مدت 9 ماہ مقرر کی گئی ہے۔تجویز کی جانے والی اس سکیم کے تحت اثاثوں کی وطن واپسی کی صورت میں یا بصورت دیگر مختلف ٹیکس ریٹ لاگو ہوں گے۔ ڈرافٹ کی جانے والی اس سکیم کے تحت اگر اثاثے پاکستان منتقل کیے جائیں گے تو پہلے 3 ماہ میں 5 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ اثاثوں کو وطن منتقل نہ کرنے کی صورت میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔آئندہ 3 ماہ میں وطن منتقل کیے جانے والے اثاثوں کو قانونی شکل دینے کیلئے 7 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا، جبکہ اثاثوں کو وطن منتقل نہ کرنے کی صورت میں 10 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔تجویز کردہ سکیم کے مطابق آخری 3 ماہ میں وطن منتقل کیے جانے والے اثاثوں پر 10 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا جبکہ وہ اثاثے جو وطن منتقل نہیں کیے جائیں گے ان پر 20 فیصد ٹیکس لاگو ہوگا۔خیال رہے کہ انڈیا میں یکم جون 2016 کو آمدنی ظاہر کرنے کی ایک سکیم متعارف کرائی گئی تھی۔ جس کے تحت جن لوگوں نے ٹیکس چوری کی تھی انھیں ایک مہلت دی گئی تھی کہ وہ سزا سے بچنے کیلئے جرمانہ اور ٹیکس ادا کریں جو مجموعی طور پر ظاہر نہ کی گئی آمدنی کا 45 فیصد تھا۔اس اعلان کے بعد اکتوبر 2016 تک 64275 ہندوستانیوں نے تقریبا 97.5 ارب ڈالر کے اثاثے ظاہر کیے تھے جس سے 44.8 ارب ڈالر کا ریونیو حاصل ہونے کی ا±مید پیدا ہوئی۔اسی طرح کی ایک اسکیم انڈونیشیا کی حکومت کی جانب سے بھی متعارف کرائی گئی تھی۔ ٹیکس ماہر نسیم احمد نے بتایا کہ پاکستانیوں کیلئے اسکیم میں تجویز کی گئی ٹیکس کی شرح بہت کم ہے۔ ٹیکس کو کم سے کم 25 فیصد لاگو کیا جانا چاہیے۔
کالادھن