پاناما لیکس کیس کی سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیئے کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب اور عدالتی جواب میں قطری خط اورسرمایہ کاری کا ذکر نہیں کیا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ لازمی تھا کہ وزیر اعظم اپنے دفاع کا ہر نکتہ پارلیمنٹ میں بیان کرتے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جائیدادیں قطریوں کی تھیں تو منی ٹریل شریف خاندان کیسے دے سکتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جائیدادیں قطری کی ہیں تو پیسے کی منتقلی کاسوال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ مریم نواز وزیر اعظم کے زیر کفالت ہیں۔ مریم نے گوشواروں میں قابل ٹیکس آدمنی صفر ظاہر کی۔ کیپٹن صفدر کا دوہزار تیرہ سے پہلے ٹیکس نمبر ہی نہیں تھا۔
جس کی آمدن صفر ہو وہ بیوی کی کفالت کیسے کر سکتا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے نعیم بخاری کو کہا کہ بخاری صاحب آپ سے سولہ سوالات کئے آپ نے ایک کا جواب نہیں دیا۔ قانونی سوالات سے فلرٹ نہ کریں۔ لگتا ہے آپ مچھلیاں پکڑنے آئے ہیں۔ سوال کرنے پرپتلی گلی سے نکل جاتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ بخاری صاحب کیا آپ کو کیس ختم کرنے کی جلدی ہے جب تک مطمئن نہیں ہوتے آپ کو نہیں جانے نہیں دینگے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا بخاری صاحب آپ میڈیا کو نہیں ججوں کو مطمئن کریں جس جرم کے تحت آپ اسحاق ڈار کی نااہلی چاھتے ہیں وہ ان پر ظاھر نہیں ہوا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں شریف خاندان سے رعایت برتی گئی۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا آپ کی بات غیر متعلقہ ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مقدمہ مناسب تحقیقات نہ ہونے کی بنا پر بند کر دیا گیا۔ سماعت میں جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیئےکہ شریف خاندان کے کاغذات نامکمل ہیں۔ ان کے وکلا کو جواب دینا ہوگا۔ آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ وزیراعظم کیساتھ آپ کے موکل اور اراکین پارلیمنٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ ہی معاملہ رہا تو سراج الحق کے علاوہ پارلیمنٹ میں کوئی نہیں بچے گا۔ عدالت عظمی نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔