ہماری پہچان۔ جان اور آن ہمارا پاکستان

Jan 09, 2018

شوکت وِرک

جغرافیائی واحدت سے قوم اور فکری وحدت سے امہ تشکیل پاتی ہیںاور الحمد اللہ پاکستان ان دونوںوحدتوں کا مجموعہ ہے۔ بلوچستان یا خیبر پختونخوا کے پہاڑی سلسلے ہوں یا پھر پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے ہر ایک کی ثقافت اور جغرافیائی محل وقوع یا زبان یہ سب الگ الگ ہونے کے باوجود پاکستان کا حصہ ہونے کے بدولت یہ علاقے پاکستان اور ان علاقوں میں بسنے والے پاکستانی قوم کہلاتے ہیں ۔یہ تو رہی پاکستانی کی جغرافیائی وحدت جہاں تک فکری وحدت کا تعلق ہے تو اسلام نے تمام مسلم ممالک کو اسلام کی لڑی میںپرو کرمسلم امہ بنا رکھا ہے اس کی وضاحت قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ آل عمران کی آیت 103میں کچھ یوں ہے ۔( ترجمہ :کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے اور مومنو سب مل کر اللہ کی رسی (دین اسلام) کومضبوطی سے پکڑے رہنا آپس میں نفاق نہ ڈالنا اور اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کی رحمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پائو۔) پاکستان کی اسلامی ریاست کے حصول کیوجہ دو قومی نظریہ ، اسلامی اقدار اوراسلامی تعلیمات کی ترویج ، پابندی اور ان پر عمل پیرا ہونا تھا مگر بانی پاکستان کے بعد ملک کیے سیاسی حالات ایسے ہوئے کہ یہ سب کچھ تو ایک طرف ہم سیاسی استحکام سے بھی عاری رہے سیاستدانوں کی آپس کی مخالفتوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا اور ان کے درمیان ذاتی اور سیاسی مفادات کے حصول کے باعث اتحاد و اتفاق معدوم رہا جو کسی بھی طرح ملک وقوم کے مفاد میں نہ تھا اور ازاں بعد کرپشن کی لہر نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو ملکی تعمیر وترقی کے لئے کسی طور بھی سم قاتل سے کم نہ تھی جس پر علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر صادق آتا ہے کہ …؎

؎ فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانہ میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
گروہی اور ذاتیات و شخصیات کی سیاست سرعت کیساتھ پھیلتی رہی اور ہم ایک قوم کے بجائے ہجوم بن گئے۔ ازاں بعد روس اور امریکہ کی افغانستان میں فوج کشی اور اس میں پاکستان کی شمولیت اور روس کے ٹوٹنے سے دہشت گردی نے جنم لیا اور نائن الیون کے بعد اس میںتیزی سے شدت آگئی اور امریکہ نے پاکستان کو اپنا غیر نیٹو اتحادی بنا لیا اور افواج پاکستان دہشت گردی سے نبرد آزما ہوئی اور بڑی دلیری اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی کے قلع قمع میں مصروف ہوگئی اور اپنی حکمت عملی سے اس میں کامیاب ہوئی۔ یہ بجا ہے کہ امریکہ کی اوبامہ انتظامیہ نے اس حوالے سے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی کہ پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا تھا اور امریکہ نے حسب معمول اپنے مفادات تک تو پاکستان کا ساتھ دیا اور جبکہ افواج پاکستان نے تقریباً دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کر دئیے تو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پاکستان کی قربانیوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان پر عجیب قسم کے الزامات عائد کرنا شروع کردئیے اور پاکستان کی امداد بھی بند کردی اور پاکستان جو پہلے سے کئی بحرانوں کا شکار تھا کو ایک اور نیا مسئلہ پیش آگیا مگر اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے سیاستدانوں کا یہ احساس جاگ اٹھا اور انہوں نے آپس کے اختلافات بھلا کر اتحاد کی اہمیت اور افادیت سمجھ میں لیا اگر ہمارے سیاستدان اسی طرح ملکی اور قومی معاملات میں آپس کے اختلافات کو تج کر اتحاد کو حرز جاں بنا لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان جس کے پاس دنیا کی بہترین قوم، بہترین فوج اور بہترین محل وقوع ہے دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں شامل نہ ہوسکے۔اگلے روز معروف ایٹمی سیاستدان عبدالقدیر خان کے کالموں کا مجموعہ ’’سحر ہونے تک‘‘ میں شائع شدہ ایک کالم پڑھ رہا تھا جس کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں جو واضح طور پر اتحاد کے فوائد کو اجاگر کرتا ہے وہ رقمطراز ہیں۔
’’آپ نے دیکھا کہ اکثر پرندے اور جانور جھنڈ کی شکل میں رہتے اور حرکت کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں اتحاد کے فوائد سمجھنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔ جنگلی کتے ایک ساتھ ملکر شیر کو بھگا دیتے ہیں، لگڑ بھگڑ بھی متحد ہوکر شیر، چیتے اور تیندوں کو بھگا دیتے ہیں جنگلی بھینسوں کا غول جب شیر کی طرف دوڑلگاتا ہے تو شیر دم دبا کر بھاگتا نظر آتا ہے۔ مخلص ، نیک اور ایماندار حکمران و رہنما بھی ہمیشہ سے پہلے اتحاد کی تلقین کرتے ہیں کہ اختلافات جنم نہ لے سکیں اور قوم متحد رہے۔ اتحاد کے فوائد اور برکتیں اظہر من الشمس ہیں اور امریکی انتظامیہ کے جواب میں اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہمارے حکمران ، قائدین اور سیداستدان اپنے سیاسی اور دیگر اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کی بھلائی ، بہتری اور استحکام کے پیش نظر بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں اس سے پاکستان مخالف قوتیں ان کے سامنے ٹھہر نہیں سکیں گی اور ان کا یہ اتحاد و قتی اور عارضی نہ ہو بلکہ دائمی بنیادوں پر قائم ہو جو صرف ملک و قوم کے لئے ہی نہیں خود ان کے بھی مفاد میں ہوگا۔ ملک کا ہر فرد وسیاستدان اپنے اپنے علاقے سے پیار کرے، اپنی اپنی علاقائی ثقافتوں کو ترویج دے، ان سے محبت کرے، اپنی زبان سے الفت کرے، اپنی رسومات کو چاہے ، اپنی ذات اور برادری سے پیار کے کہ یہ سب ہمارے پاکستان کا خوبصورت گلدستہ ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ سب سے زیادہ پیار بلکہ والہانہ طور پر پیار صرف پاکستان سے کرے کہ یہ ہماری پہچان۔ جان اور آن ہے تو پھر آپ اتحاد اور پاکستان سے پیار کی بدولت دیکھیں گے کہ پاکستانی قوم جس میں اللہ تعالی نے بہترین صلاحتیں عطا کی ہیں وہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی بھی معترف ہوگی اور دل لگا کر بھرپور محنت سے پاکستان کی تعمیر او ترقی میں بھرپور حصہ لے گی۔

مزیدخبریں