قارئین جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں حق تعالیٰ کی انسان پر سب سے پہلی اور آخری رحمت اس کا رحم و کرم ہے اس کے ننانوں ناموں کا ترجمہ رحمت، نعمت ،کرم اور عفو و دگر گذر کا ہے اور یہی وہ ننانوے الفاظ ہیں جن پر پوری کائنات کی زندگی رواں دواں ہونے کا انحصار ہے ورنہ انسان جس حد تک کا ناشکرا اور جس مقام تک کا گناہگار ہے اپنے اعمال بد میں جکڑا ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی ایک نگاہ غضب پڑے تو کڑے کائناتوں سے ٹکرا جائیں، سیارے مداروں سے باہر نکل جائیں اور انسانوںکی راکھ اڑتی پھرے مگر وہ رحم کرتے کرتے نہیں تھکتا اور انسان گناہ کرتے کرتے نہیں تھکتا ۔جبکہ اس کی خوش قسمتی یہ ہے جب وہ پکڑتا ہے بھی تو پھر بھی ظلم نہیں کرتا ہے بلکہ انسان کو اسکے ذاتی اعمال و اقوال کے حوالے سے پکڑتا ہے ایک طویل عرصے تک ڈھیل دینے کے بعد، درگز کرنے کے بعد، پردہ پوشی کے بعد تب بھی انسان چلا اٹھتا ہے حالانکہ وہ اپنے پھیلائے ہوئے گھنائونے اعمال کے جال میں خود پھنس جاتا ہے، بالکل اس طرح جسطرح خود کشی کرنے والا خود اپنے ہاتھوں سے زہر کی پڑیا یا اسلحہ بازار سے خرید کر لے آتا ہے کوئی زبردستی اسکے حلق میں زہر نہیں انڈیلتا نہ ہی کوئی دوسرا شخص اسلحہ خرید کر اس پر وار کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہو تو پھر تو یہ قتل کہلائیگا، خود کشی نہیں کہلائے گی۔
اسی طرح پھانسی پر چڑھنے والا بھی خود اپنے پائوں سے چل کر تختے تک جاتا ہے بہر حال حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اپنے اعمال کا جکڑا اور پکڑا ہوا ہے بلکہ اپنے اعمال بد کے ہاتھوں خود ہی خود کش اور خود ہی مقتول ہے اور ایسا اسلئے ہے کیونکہ گناہگار و خطا کار انسانوں نے خود کو عقل کل سمجھ لیا ہے اور بد تر ترین ہستی کی ہمہ نگران طاقت کے وجود سے منکر ہو گئے ہیں حالانکہ دل کے ان اندھے لوگوں کے پاس آج بھی پکڑ، جکڑ اور ذاتی قتل سے بچنے کی ایک اہم سہولت موجود ہے جو انہیں نظر نہیں آتی وہ یہ ہے کہ اسے نیت کی بدی جو کہ اعمال بد کی ماں ہے مکمل طورپر چھوڑنی پڑے گی۔
اپنے اعمال کی ذمہ داری خود اٹھانے کا احساس پیدا کرنا ہو گا ورنہ تو وہ ہر قسم کے ظلم، بدی، بدکاری، اذیت رسانی اور جبر کے باوجود بزعم خود یہ فیصلہ بلکہ عملی کفر کرتا رہیگا کہ اپنے قبیح کرتوتوں کی ذمہ دار خود اس کی ذات نہیں ہے ۔بلکہ وہ جو ایک ادنی ترین تخلیق ہے ہر قسم کے گناہ اور خطا سے پر ماورأ ہے وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اسے واضح طور پر دو راستے دکھا دیئے گئے ہیں اور ساتھ ہی عقل سلیم عطا کر دیگئی ہے۔ وہ کونسا راستہ اختیار کرتا ہے یہ اسکی اپنی ذاتی پسند کے اعمال پر منحصر ہے در اصل ہوتا یوں ہے کہ انسان اپنے گھنائونے اندرونی عمل کا اظہار کر لینے کے بعد اسکے رد عمل کی ذمہ داری قبول کرنے سے منکر ہو جاتا ہے جو اسکارد عمل قبول نہ کرنے کی ذمہ داری سے بھی بڑا عمل بد ہے ایسے ہی لوگوں کی نگاہ اور نفسیات کو اللہ تعالیٰ بھٹکا دیتاہے۔
صد افسوس تو یہ ہے کہ اس دنیا میں سب انسان سیدھی یا الٹی اپنی اپنی راہ پر چل رہے ہیں اور سب کو یہ گمان ہے وہ صراط مستقیم پر چل رہے ہیں اپنی اس غلطی کا احساس، ان کو اس وقت ہوتا ہے جب وہ غلط قدموں سے غلط راستے کی بظاہر سیدھی اور خوشنما زمین پر چلتے چلتے غلط منزل پر آ پہنچتے ہیں لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے اپنے قدموں سے پھسلے ہوئے اور اپنے ضمیر کی نا طاقتی کیوجہ سے گرے ہوئے ان لوگوں کو خدا بھی کبھی ان کے جانے بوجھے ہوئے جرم کی سزا بری نہیں کرتا ہے کیونکہ اس نے فرما دیا ہے۔
’’ اور خبردار رہے انسان ہم نے ان کے تمام اعمال کو اپنے احاطے میں لیا ہوا ہے‘‘۔
(القرآن )