میرے سامنے صرف 8جنوری کے اخبارات ہیں‘ میں نے عملاً چند دن پہلے کے صدر ٹرمپ کے حوالے سے اخبارات میں چھپنے والے کالموں‘ تجزیوں کاذکر نہیں کیا نہ ہی اس کتاب کا جس کی اشاعت کو روکنے کیلئے وائٹ ہائوس بہت زور لگا کر ناکام ہوچکا ہے اور مصنف جو ان کا اپنا اہم ترین معاون‘ رفیق اور حکمت کار تھا کا قلم وفکر اور بیان شدہ حقائق کا جادو سر اٹھائے صدر ٹرمپ کو میدان مبازرت میں اترنے کیلئے آوازیں بلند کر رہا ہے۔ سب سے پہلے تو ہندوستان ٹائمز کی خبر کہ ’’مودی عہد میں مسلمانوں پر مظالم میں100فیصد اضافہ ہوا‘‘ جبکہ کشمیر میں انسانی حقوق کے قتل عام، کشمیریوں سے اقوام متحدہ میں جاکر ’’وعدہ نہرو‘‘ کہ استصواب کا انہیں حق دیا جائیگا۔ امریکہ کا ان قراردادوں میں حمایت کرنا اور استصواب کے حق کی تسلیم کرنا بھی تو تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ سب کچھ طاق نسیاں میں سجا کر بھی بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ نے کس سینہ زوری سے بلکہ غیراخلاقی‘ رویے سے پاکستان پر الزام لگا دیا ہے کہ پاکستان کے تربیت کردہ کشمیری نوجوان فوج (بھارتی) سے لڑ رہے ہیں۔ کلبھوشن یادیو کے حوالے سے پاکستان نے انکی والدہ اور بیوی کو بلاکر جس طرح ملوا دیا اس سے پاکستان دنیا میں اخلاقی طور پر بہت بلند معیار پر فائز ہوا اور جس طرح بھارتی حکومت نے اس مسئلہ پر خفت کو دبانے کیلئے کشمیریوں کے حوالے سے پاکستان پر الزام لگایا اس سے بھارت کی کلبھوشن کے حوالے سے خفت اور اخلاقی تباہی کا تو ازالہ نہیں ہوتا۔ پاکستانی پانی کو روکنا مودی عہد کا بدترین واٹر سیاسی حربہ ہے۔ ستلج تو مکمل طور پر خشک‘ راوی بھی تقریباً خشک نما اور اب دریائے چناب کا پانی روک کر مودی عہد پاکستان کو زرعی طور پر اور فضائی آلودگی کے حوالے سے تباہ کرنے میں مصروف ہے۔ ہمارا تجزیہ رہا ہے کہ اگر بھارت کو نہرو اور کانگریس نے واحد ہندو دینی وثقافتی سرزمین بنانے سے سخت پرہیز کیا تو اس کا سبب وہ مجلس احرار‘ جمعیت العمائے اسلام‘ دیوبند اور مولانا ابوالکلام آزاد کا واضح اور دوٹوک پاکستان مخالف کردار تھا جس کے سبب یہ مسلمان مذہبی قائدین نے اکھنڈ بھارت کو برقرار رکھنے کی بہت بڑی سیاسی جدوجہد کی تھی۔ لہٰذا ان مسلمانوں کا استحقاق آج بھی ہے کہ بھارت محض انتہا پسند ہندو دینی وثقافتی ریاست نہ ہو بلکہ اس میں مسلمانوں کے ثقافتی اور سیاسی حقوق کی بقاء بھی ہو مگر ہندوستان ٹائمز نے عملی تلخ حقیقت ہم پر ظاہر کر دی ہے۔ چند دن پہلے دلتوں نے ممبئی میں شدید احتجاج کیا تھا کہ انکے ساتھ مودی عہد توہین آمیز سلوک کرتا ہے۔ یہ ایک معصوم دلت کے قتل کیخلاف ردعمل تھا۔ مسلمانوں کے گائو کشی کے غلط الزام میں کتنا ذلیل وخوار کیا گیا، کتنے معصوم مسلمان قتل ہوئے؟ عیسائی اب کرسمس کا جشن تک نہیں مناتے کیونکہ عیسائیوں کے سکولوں‘ ہسپتالوں‘ مشنری اداروں کو آگ لگانا‘ تباہ کرنا‘ معاشی طور پر زبوں حالی کرنا انتہاپسند ہندوئوں کا راستہ رہا ہے، مستقل طور پر ۔
اب ہم صدر ٹرمپ کے دو بیانات یعنی ٹویٹز کا ذکر کرتے ہیں جس کے خلاف شدید ردعمل اب تک ہو رہا ہے۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا واضح اعلان اس کے خلاف اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ مؤثر ، نمایاں کردار واضح طور پر پاکستان کا ہے۔ ہماری عالم وفاضل اور صحافتی شہہ دماغ ملیحہ لودھی نے پاکستان کا مؤقف بیت المقدس اور فلسطین سے محبت کی کیفیات کو جذباتی اور روحانی قوتوں کی میسر کردہ فطری و عقلی صلاحیتوں کیساتھ کھل کر بیان کرکے صدر ٹرمپ کے غبارے سے ہوا ہی نکال دی تھی۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ہمارے وزیراعظم عباسی اور آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ باہمی طور پر یکساں ذہنی فضا‘ ماحول اور قومی سلامتی امور میں یک جان دو قالب ہیں۔ ہم اس سول وزیراعظم اور آرمی چیف جنرل باجوہ کی یک جان، سوچ وحکمت عملی اور تدبیروں کو ’’خیر‘‘ کا راستہ اور مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ جنرل باجوہ سکیورٹی امور بلوچستان کے معاملات‘ قبائلی علاقہ جات، سرحدی امور کی مکمل طور پر پیشہ ورانہ حفاظت کے سولجرز کے ہمراہ مصروف عمل ہیں۔ ان کا یہ ’’ لو پروفائل‘‘ مگر پیشہ ورانہ شاندار وجرأت مندانہ کردار باعث اطمینان ہے۔ اب آتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے پاکستان کو دھمکی آمیز جو ٹریٹ کیا ہے اسکے نتائج اور مراقب کی طرف۔ پہلا فائدہ تو یہ ہوا کہ آپس میں تقسیم سیاسی پارٹیاں صدر ٹرمپ کی دھمکی کے ردعمل میں فوراً اکٹھی ہو گئیں۔ پارلیمنٹ میں واضح اور متفقہ قرارداد سامنے آئی۔ چیئر مین سینٹ رضا ربانی نے کھل کر صدر ٹرمپ اور امریکی شاطرانہ کھیل پر پاکستان عوام جذباتی رد عمل پیش کیا مگر یہ عالم پاکستانی عوامی آواز کی نمائندگی تھا۔ ایسا سخت اور کرارا رد عمل پاکستانی نائب صدر اور چیئر مین کی طرف سے شاید پہلی بار تاریخ میں رقم ہوا ہے ہمارے سفیر اعزاز چوہدری کے ذریعے حکومت پاکستان کا مؤقف ہے کہ مغربی فضائی کوریڈور تو بند ہے۔ کابل رسد اب بھی ہمارے ملک سے جاری‘ حساب کرنا ہے تو پھر پورا کریں۔ حکومت نے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیکر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم صدر ٹرمپ کے ٹویٹ کو دیکھ کر ’’ زحمت ‘‘ مگر زیادہ تر ’’احمق‘‘ تصور کرتے ہیں جس نے سیاسی طور پر منشتر قوم کو متحد کیا ہے۔ امریکہ عملاً پاکستان کا مقروض ہے‘ دوسرا موقف یہ سامنے آیا کہ امریکی امداد کی بندش ہیلی کاپٹرز سے انکار‘ ایف 16سے انکار‘ ایک رائفل جو دہشت گردوں کیخلاف استعمال ہوتی تھی اسکی بھی بندش ہوئی‘ یہ سب کچھ عملاً پاکستان کے ’’خیر‘‘ اور امریکہ کے اپنے لئے ’’شر‘‘ ہے پاکستان امریکہ پر دفاعی طور پر ملکی انحصار ختم کر چکا تا ہم میجر جنرل آصف کا بیان کردہ عسکری مؤقف تدبر و فراست کا راستہ ہے جبکہ وزیر خارجہ کا بیان بھی تو سیاسی اور ڈبل گیموں کرتے رہنے والے امریکیوں کے سامنے پارلیمانی جواب ہے۔ لہٰذا دونوں مؤقف قابل قدر اور ضرورت کے مطابق ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو احمقانہ قرار دینا تدبر نہیں ہوگا۔چونکہ ماضی میں امریکہ این جی اوز کے ذریعے جاسوسی کرواتا رہا ہے‘ اسامہ بن لادن کی تلاشی میں ڈاکٹر آفریدی کا منفی استعمال پاکستانی عوام میں پولیو کے قطروں کے حوالے سے امریکی سازش کہلاتی رہی ہے۔ یوں امریکہ نے این جی اوز کو استعمال کرکے جو راز حاصل کئے یا بہت کچھ کو تباہ و برباد کیا یا پاکستانی حکومت کی ’’فیصلہ سازی‘‘ کی امریکی سفارت خانے سے یا قرض سے مکمل جاسوسی ہوئی اب اس کا ردعمل یہ ہے کہ بیس کے قریب غیرملکی این جی اوز کی وجہ عیش منسوخ ہے۔ جب تک وہ خود کو آئین پاکستان کیمطابق نہیں تبدیل کرتی تب تک یہ پابندی رہے گی۔ ہم اس فیصلہ کی تحسین کرتے ہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن نے کہا امریکہ سے فنڈنگ قبول کرنیوالی این جی اوز سے تحقیقات کروائیں۔ ہمارے وزیراعظم عباسی نے کھل کر کہا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ جیت چکے ہیں اپنے وسائل سے یہ جنگ لڑتے ہیں۔ ہماری معیشت کو 120 ارب ڈالر کا یہ جنگ نقصان پہنچا چکی ہے جبکہ ایک معاشی ردعمل یہ ہے کہ نیٹوکنٹینرز کا ٹول ٹیکس 100 فیصد بڑھانے کا فیصلہ سامنے آرہا ہے۔ وزارت مواصلات اور خزانہ حکام فیصلہ کرینگے ۔ امداد کی بندش سے ہونے والے نقصان کا ازالہ یوں بھی کیا جائے گا جبکہ عملی مالی بات یہ بھی قابل توجہ سمجھی گئی ہے کہ پاکستانی جی ایس پی پلس درجہ پر برقرار رکھنے میں مشکلات ہوسکتی ہیں۔ امریکی واچ لسٹ انسانی حقوق عملدرآمد سزائے موت سے متعلق خدشات موجود ہیں۔ یورپی یونین رواں ماہ ان امور کا پاکستان کے حوالے سے جائزہ لے گی۔ واچ لسٹ کا سکیم سے کوئی لینا دینا نہیں یہ پاکستانی مؤقف ہے جبکہ صدر طیب اردگان نے ترکی کیخلاف امریکی سازشوں کا پھر کھل کر بیان کیا ہے۔ ایک علاقائی ردعمل یہ سامنے آیا ہے کہ ہمارے قومی سلامتی امور کے مشیر ناصر جنجوعہ اتوار کو تہران میں ایرانی ہم منصب ایڈمرل علی شمحانی سے ملاقات کی اور امریکی دھمکیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے مشترکہ حکمت عملی شاید دونوں ممالک بنائینگے۔ آرمی چیف کو امریکی جنرل جوزف کا ٹیلی فون بھی گویا ہماری عسکری فیصلہ سازی سے امریکی عسکری رابطے برقرار ہیں۔ صدر ٹرمپ ’’یوٹرن‘‘ کس انداز میں لیتے ہیں اس کا اندازہ کیا گیا کہ ان کا بیان ہے شمالی کوریا سے براہ راست مذاکرات پر تیار کم جونگ کو فون بھی کرسکتا ہوں۔ حیرت انگیز تبدیلی صدر ٹرمپ کے رویئے میں ہے۔
پس تحریر (2018-19) پاکستان کیلئے علاقائی‘ عالمی سازشوں‘ حکمت عملیوں کا موسم ہے۔ سقوط ڈھاکہ سے بھی کہیں زیادہ واضح چیلنجز‘ خطرات‘ اندیشے اور وسوسے محسوس کرتا ہوں۔ بلوچستان کو علیحدگی سے دوچار کرنا‘ قبائلی علاقوں کو غیرمستحکم کرنا واضح طور پر علاقائی اور بین الاقوامی پاکستان دشمن قوتوں کی دوٹوک حکمت عملی ہے۔ امریکہ بھارت‘ اسرائیل‘ افغانستان کے بھارت نواز ادارے اس معاملے میں مشترکہ اور انفرادی تدبیریں‘ سازشیں‘ حکمت عملیاں اپنائیں گے۔ پاکستان میں نہایت مستحکم حکومت کا وجود بہت زیادہ ان دو تین سالوں میں نہایت بڑی قومی و جغرافیائی سلامتی کی شدید ترین ضرورت ہوگی۔ عملاً ہمیں چین کی طرح سیاسی اور عسکری طور پر ’’یک جان دو قالب‘‘ فیصلہ ساز بننا ہوگا۔
حافظ محمد سعید سے استدعا: خدارا تدبر و فراست کا راستہ اپنائیں فی الحال خود کو اور اپنے رفقاء کو مکمل طور پر ’’خاموش‘‘ اور فعال بنالیں۔ تدبروفراست سے دشمن سازشوں کو ناکام بنائیں فی الحال ہر سیاسی اجلاس و عملی حرکت سے حالت صوم میں تین سال کیلئے چلے جائیں بالآخر صبر کا پھل کامیابی لائے گا۔