یار مار

Jan 09, 2018

خالد محمود ہاشمی

جب یار کے ہاتھوں کوئی دکھ‘ صدمہ یا نقصان پہنچے اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ یار مار نکلا۔ 70سالہ دوستی کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکہ یارمار ہے‘ اس کا یارانہ ہمارے کسی کام نہ آیا۔ ہمارے دولخت ہونے کا تماشا امریکہ نے خوب دیکھا۔ 70سال سے مسئلہ کشمیر لٹکا ہوا ہے۔ اس بارے میں بھی امریکہ نے مظلوم کشمیریوں کے حق میں ایک لفظ نہیں کہا۔ ہمیں دہشت گردی نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ امریکہ نے الٹا ہم پر الزام دھرا‘ ہم نے پیسے کیلئے نہیں عالمی فائدے میں دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑی۔ امریکہ کی طرف سے ’’ڈومور ڈو مور‘‘ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے۔ بالآخر ہمیں جواب دینا پڑا کہ ’’نو مور نومور‘‘۔ ساس بہو بھی ایک دوسرے کی جلی کٹی سنتے سنتے عاجز آجاتی ہیں، کوئی مزارعہ کمی بھی ایک دن چودھری کے سامنے سینہ تان لیتا ہے‘ عزت اور وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔ امریکہ نے ہمیشہ دھوکہ دیا، ضروری ہے کہ ہم تعلقات پر نظرثانی کریں‘ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ امریکہ کی مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزیوں کی فہرست میں اسرائیل اور بھارت شامل نہیں۔ گویا مذہبی آزادیوں کی ساری کی ساری خلاف ورزیاں مسلمان ممالک کر رہے ہیں۔ امریکہ پاکستان کی سکیورٹی معاونت معطل کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ پاکستان مذہبی آزادی کی خلاف ورزی کرنیوالے ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ سکیورٹی معاونت حقانی نیٹ ورک اور دیگر افغان طالبان کے خلاف کارروائی تک معطل رہے گی۔ فوجی امداد اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں پاکستان کی تقریباً 2ارب ڈالرز کی امداد روکی جائیگی۔ 15سال میں دہشتگردی کیخلاف جنگ میں 125 کھرب روپے خرچ کیے۔ اسکے نتیجے میں ٹرمپ کی ملامت ہمارے ہاتھ آئی۔

امریکی صدر ٹرمپ نے بالآخر اپنی دھمکیوں پر عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ پاک امریکہ سکیورٹی تعاون کا تعطل پابندیوں کی پہلی قسط ہے۔نائن الیون کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے افغانستان میں القاعدہ کا تعاقب شروع کیا تو پاکستان نے فرنٹ لائن سٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ اس وجہ سے خود دہشت گردی کا شکار ہوا۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ پورا پاکستان امریکہ کے معاملے میں یک جان دو قالب ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کہیں کوئی اختلاف رائے نہیں۔ افغانستان کی جنگ پاکستان میں کسی صورت نہیں لڑ سکتے۔ ہمیں معاشی لحاظ سے کمزور کرکے امریکہ دراصل دہشت گردی کیخلاف جنگ کو نقصان پہنچائے گا۔ پاکستان کیلئے امریکی امداد روکنا حیرانی کی بات نہیں۔ اوباما کے دور میں بھی ایسی دھمکی دی گئی تھی۔ ہم نے امریکہ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایٹم بم بنایا‘ ایٹمی دھماکہ کیا۔ پاکستان واحد ملک ہے جس کی فوج اپنے ٹینک بناتی ہے‘ پاک فضائیہ اپنے جہاز بناتی ہے‘ پاک بحریہ آبدوزیں اور بحری جہاز بنا رہی ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی ملے یا نہ ملے چین روس اور یورپی ممالک کی ٹیکنالوجی ہمارے لیے دستیاب ہے۔ 33ارب ڈالر امداد کا امریکی دعویٰ بے بنیاد ہے‘ ٹرمپ بھارتی زبان بول رہے ہیں۔ امریکہ کا رویہ نہ اتحادی کا ہے نہ دوست کا۔ امریکہ کی خواہش ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ سی پیک معاہدے کو ٹھپ کر دے۔
امریکہ احسان فراموش ہے‘ جس نے 1979ء سے 1990ء تک کاتعاون بھلا دیا‘ امریکہ کے ذمے اب بھی پاکستان کے 9ارب ڈالرز واجب الادا ہیں۔ ہماری افواج‘ سکیورٹی فورسز اور عوامی قربانیوں کی داستان بہت طویل ہے۔ 2018ء کے پہلے روز ہی ٹرمپ نے پاکستان پر لفظوں کی شدید گولہ باری کی۔ پاکستان جھوٹا‘ دھوکے باز‘ 15سال میں 36کھرب روپے دے کر بے وقوفی کی، اس پر آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کی آواز گونجی ’’دھمکانے والے سن لیں، کوئی طاقت پاکستان کا بال بیکا نہیں کرسکتی‘ ایسی فوج کا سربراہ ہوں جس کے جوان ہر دم وطن کیلئے جان دینے کو تیار رہتے ہیں‘‘ اگست 2017ء میں ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کیلئے اپنی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت بھی مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان اپنے ہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بند کر دے ورنہ نتائج کیلئے تیار رہے ۔ یہ دھمکی بھی تھی ‘ وارننگ بھی۔ اس وقت سے اب تک ہم امریکی دھمکیوں کی زد میں ہیں۔ یوں لگتا ہے پاک امریکی تعلقات کو دیمک چاٹ رہی ہے۔ چند روز پہلے امریکی نائب صدر مائیک پنس نے اپنے دورہ افغانستان میں اس بات کو دہرایا تھاکہ پاکستان کو نوٹس بھجوا دیا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں بند کرے۔ اب 2ارب ڈالر کی سکیورٹی معاونت روک کر امریکہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ہم نے جلد بازی سے کام نہیں لیا اور ماضی کی طرح افغانستان کیلئے براستہ پاکستان نیٹو سپلائی روکنے کا قدم نہیں اٹھایا۔
پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے‘ ایٹمی قوت ہے اور اسکی افواج دنیا کی طاقتور ترین افواج میں سے ہیں۔ خطے میں اسکے اپنے مفادات اور ترجیحات ہیں‘ اسے دھمکانا یا دھکیلنا اتنا آسان نہیں۔ یہ افغانستان اور اسکی اتحادی افواج کا کام ہے کہ پاکستان کے اندر دراندازی اور حملے بند کرائے۔ افغانستان کے 40فیصد رقبے پر طالبان‘ جماعت الاحرار اور داعش کے دہشتگردوں کی حکمرانی ہے۔ پاکستان افغان طالبان کو افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر لانے کی صرف کوشش کرسکتا ہے‘ پاکستان افغان طالبان کے رہنمائوں کو گرفتار یا قتل نہیں کرسکتا۔ ہمیں افغان طالبان کو دھکیلنے کیلئے سارے افغان مہاجرین کو دھکیلنا پڑے گا جو بادی النظر میں آسان نہیں۔ پاکستان کو ساتھ ہی پرو کشمیری گروپس کیخلاف بھی کارروائی کرنا پڑیگی۔ پاکستان ایٹمی پروگرام کو محدود کرنے پر آمادہ ہوسکتا ہے، بشرطیکہ بھارت بھی ایسا کرے۔
پاکستان کو فیصلہ کرنا پڑیگا کہ وہ کسی بھی صورت میں امریکی امداد قبول نہیں کریگا۔ افغانستان سے امریکی نیٹو فورسز کے انخلاء کیلئے چین‘ روس‘ ایران‘ ترکی اور وسط ایشیا کی ساری ریاستوں کو مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ افغان طالبان بھی امریکی انخلاء چاہتے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر کراس بارڈر حملوں کو روکنے کیلئے امریکی اور نیٹو فورسز نے طالبان کیخلاف تسلی بخش کارروائی نہیں کی۔ امریکہ کی نظریں ہماری ایٹمی تنصیبات پر ہیں۔ امریکیوں نے افغانستان میں قدم جمانے کیلئے پیسے خرچ کیے ، کام نکال کر ہمارے جھوٹا اور دھوکے باز ہونے کی سند جاری کر دی۔ ابتداء میں القاعدہ نیٹ ورک امریکی ہدف تھا‘ ٹرمپ کا نعرہ امریکہ فرسٹ ہے۔ آجکل حقانی نیٹ ورک امریکہ کے سر پر سوار ہے۔ امریکہ سوچے بھلاہمیں حقانیوں سے کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ ہمارا ان سے کیا لینا دینا۔ روس اور ایران کو امریکہ کے داعش کے ساتھ رابطوں پر تشویش ہے‘ داعش نے افغانستان میں امریکی موجودگی میں سر اٹھایا ہے۔ یہ بلا افغانستان کے گردونواح پر بھی نازل ہوسکتی ہے۔ ہمیں اپنے مفاد کیلئے افغان حکومت اور افغان طالبان دونوں سے رابطے میں رہناہے‘ ہمیں مالی اور سفارتی دبائو کا سامنا ہے۔ امریکہ بھارت سے ایسے جڑا ہوا ہے جیسے ہتھیلی سے انگلیاں دونوں کی نظریں سی پیک اور بی اینڈ آر آئی پر ہیں۔
امریکہ بھارت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی جدوجہد کو کرش کرنے میں پیش پیش ہے۔ امریکہ نے القدس الشریف کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے فلسطینیوں کیلئے آزاد ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے روک دیا ہے۔ امریکہ ایران میں بھی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششوں کو ہوا دے رہا ہے‘ وہ سعودی عرب پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ اسرائیل سے شیک ہینڈ کرے اور ایران کو آنکھیں دکھائے۔ ہمیں منافق ’’یارمار‘‘ سے دور رہنے کی حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ ہماری سیاسی اور عسکری قیادت یقینا ایک صفحے پر ہیں۔ حکومت اعلان کرچکی ہے کہ امریکہ یار مار ہے۔ امریکہ کو چبھن اس بات کی ہے کہ اسے افغانستان میں پے در پے ناکامیوں‘ ہزیمت‘ پسپائی اور پشیمانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کا وقت اور پیسہ دونوں ضائع ہوئے ہیں‘ وہ افغانستان میں جوا ہار چکا ہے۔ ہارا ہوا جواری اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں اپنی تاریخ کی لمبی جنگ لڑی ہے۔ طالبان وہ مکھیاں ہیں جنہیں ختم کرنا آسان نہیں۔ ساری مکھیوں کو کون قابو میں لاسکتاہے‘ انہیں ایک جگہ سے اڑائیں تو آن واحد میں دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔

مزیدخبریں