(1) جب بھی سال آخری انگڑائی لیتا ہے تو اخباروں میں دلچسپ کارٹون چھپتے ہیں۔ ایک خزاں رسیدہ پتے کی طرح لرزتا کانپتا کانپتا بوڑھا (Pale Yellow Hectic Red ) سامان سفر باندھ رہا ہوتا ہے اور ساتھ ہی نوزائیدہ بچہ پنگھوڑے میں ہمک رہا ہوتا ہے۔ غربت‘ بیروزگاری اور بیماری کے ہاتھوں تنگ آئے لوگ اس طفلک سے بے شمار امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سال نو ان کے دکھ درد کا مداوا کرے گا۔ چارسو خوشحالی اور ہریالی ہوگی اور وہ ہر فکر سے نجات پالیں گے مگر اس امید پر پورا برس بیت جاتا ہے۔ بچہ بڑی تیزی سے نوجوانی‘ جوانی کی منازل طے کرتا ہوا اس بوڑھے کا روپ دھار لیتا ہے … کوئی امید بر نہیں آتی‘ کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
(2) پیشہ ور نجومی‘ رمال اور اس قبیل کے دیگر لوگ پیش گوئیاں کرتے ہیں۔ ایسے سکہ بند ذومعنی جملے جن سے کچھ بھی مطلب اخذ کیا جاسکتا ہے… ایسا ہوسکتا ہے نہیں بھی ہوسکتا۔ حکومت کیلئے مشکلات کھڑی ہوں گی لیکن سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کی کرن بھی نظر آرہی ہے۔ معیشت مضبوط ہوگی لیکن کسادبازاری کا بھی قوی امکان ہے۔ الیکشن کا سال گھوڑوں کیلئے سودمند ہوگا‘ شاہی اصطبل کا ہر در کھل جائے گا‘ چارہ ساز‘ چارے کا وافر بندوبست کریں گے۔ ویسے تو ہمارے حاکموں نے درباری نجومی بھی رکھے ہوئے ہیں یہ گیلپ پولسٹر کہلاتے ہیں۔ حسب ضرورت اور حسب فرمائش حکومت کی مقبولیت کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ یہ اعدادوشمار کہاں سے اور کیسے اکٹھے کرتے ہیں؟ اس ٹولے میں کئی گیلانی‘ کرمانی‘ یزدانی ٹائپ لوگ شامل ہیں … مغربی پولنگ ایجنسیوں کی نقل کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس معاشرے میں سچائی مفقود ہو‘ دروغ گوئی اایک NORM ہو تو ذہنوں میں گھس کر حقیقت تلاش کرنا کاردارد ہوتا ہے۔ ایوب خان اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے۔ ’’میں نے ایک اچھے دوست سے پوچھا‘ تمہارا دن کیسے گزرتا ہے بولا‘ میں صبح سے لے کر شام تک جھوٹ سنتا ہوں پھر اس خس و خاشاک کے ڈھیر سے سچ کے دانے تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
(3) اس نفع بخش کاروبار میں ہمارے دوست اور ’’بیج میٹ‘‘ چودھری بشیر حسین طاہر نے بڑا نام اور پیسہ کمایا۔ مرحوم نے اتفاق سے پامسٹری پر ایک آدھ کتاب پڑھ لی تھی‘ زیرک انسان تھے‘ ذہین رسا کہاں سے کہاں لے گیا۔ میاں نوازشریف کے منظور نظر تھے کیونکہ ہر ہفتے اخباروں میں ان کی شان میں قصیدہ لکھتے ہمیں اکثر حیرانی ہوتی کہ پچاس برس کی عمر میں اولیائی تو مل سکتی ہے شاعری نہیں آسکتی۔ وہ تو بھلا ہو قتیل شفائی صاحب کا جنہوں نے یہ عقدہ کھول دیا ایک دن گلہ کرتے ہوئے کہنے لگے۔ بشیر حسین نے نوازشریف کی شان میں کچھ قصیدے لکھوائے تھے۔ پوری ’’پے منٹ‘‘ نہیں کی۔ کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں؟ میں نے بے بسی سے کندھے اچکائے … کچھ دن بعد ملاقات ہوئی تو خاصے بشاش نظر آئے کہنے لگے شاہ صاحب چمتکار ہوگیا ہے۔ بشیر حسین میرے پاس آئے کہنے لگے میاں صاحب کو آپ کے قصیدے بہت پسند آئے ہیں‘ نوکری کا معاملہ ہے کچھ اور لکھ دیں۔ میں نے کہا پہلے پرانا قرض اتارو اور اب سے قصیدوں کا نیا ریٹ ہوگا۔ وہ فوراً مان گئے اس میں غالباً بشیر حسین کا اتنا قصور نہیں تھا جتنا عمل دخل میاں صاحب کے مزاج کا تھا۔ آج بھی میاں صاحب کا دربار پیشہ ور شاعروں کاسہ لیسوں اور خوشامدیوں سے بھرا رہتا ہے‘ گو بہادر شاہ ظفر کی طرح خود شعر نہیں کہتے‘ شاید سمجھتے بھی نہیں ہیں لیکن تعریفی اور توصیفی جملوں سے خوب حظ اٹھاتے ہیں۔ آج کل چٹ پر لکھا ہوا کوئی ایک آدھ شعر بھی تقریر میں جڑ دیتے ہیں۔ نہ وکیل ہے‘ نہ اپیل ہے‘ نہ دلیل ہے‘ نہ نظیر ہے۔ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ جسٹس کیانی مرحوم کے ان طنز آلود جملوں پر کسی درباری شاعر نے تک بندی کی ہے۔
(4) انعام میں طاہر صاحب کو چیف کمشنر گلگت بلتستان لگا دیا گیا۔ جب میاں صاحب معزول ہوئے اور آصف نواز فوت ہوئے تو انہوں نے اخبار میں اشتہار دے دیا۔ جنرل آصف نواز اور نوازشریف دورے پر گلگت آئے تو دونوں نے مجھے ہاتھ دکھایا‘ بغیر لگی لپٹی کے میں نے کہا ’’ایک شخص اقتدار سے جاتا دکھائی دیتا ہے تو دوسرا زندگی سے‘‘ بس پھر کیا تھا ان کے در دولت پر ہاتھ دکھانے والوں کا تانتا بندھ گیا چونکہ سرکاری افسر تھے اور انسانی نفسیات سے پوری طرح واقف تھے۔ اس لئے فیس بھی ڈبل لیتے۔ ایک دن میں ملنے گیا تو ناصحانہ انداز میں بولے میاں کن کتابوں کے چکر میں پڑ گئے ہو اس ملک میں مصنف سے زیادہ مظلوم طبقہ کوئی نہیں ہے۔ غالب نے ایسے تو نہیں کہا تھا ’’میں مرنے سے نہیں ڈرتا فقدان راحت سے گھبرا گیا ہوں‘ بارش دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی ہے‘‘۔ اس ملک میں جنہیں کتاب پڑھنے کا شوق ہے ان کے پاس خریدنے کے پیسے نہیں ہیں اور جو خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں ان کے پاس وقت نہیں ہے۔ کیا تم نے وزیراعظم کو اخبار پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ قصیدہ بھی خود نہیں پڑھتے منشی قمر پڑھ کر سناتا ہے۔ جب میں باہر نکلا تو برآمدے میں مہوشوں کا ہجوم اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا۔ اب اسے خدا لگنی کہیئے کہ پہلی بار ہمیں اپنے سینے میں شدید جلن کا احساس ہوا۔
(4) میں کسی طور ان کی نصیحت پر عمل نہ کرسکا۔ آج جبکہ سال چولا بدل رہا ہے اور ایک مرحوم دوست کی یاد شدت سے ستا رہی ہے تو سوچا کیوں نہ چند ٹامک ٹوئیاں ماری جائیں۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ سے نااہلی کے بعد شریف خاندان کا شیرازہ بکھر جائے گا وہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔ ہاتھی اگر مر بھی جائے تو سوا لاکھ کا ہوتا ہے‘ یہاں ہاتھی مرا نہیں زخمی ہوا ہے۔ فیل بے زنجبر چیختا، چنگھاڑتا ہوا۔ یہ امید کرنا کہ تمام ممبران اسمبلیاں تتر بتر ہو جائیں گے‘ پارٹی تاش کے پتوں کی طرح بکھر جائے گی عبث ہے۔ جب تک پنجاب کی تھانیداری چھوٹے صاحب کے پاس ہے اور وہ مخالفین کا غدا کسنے کی پوزیشن میں ہیں کچھ بھی نہیں ہوگا۔ ممبران کی سیاست تھانہ کچہری سے شروع ہوتی ہے اور وہیں ختم ہو جاتی ہے۔ اس بات کا تصور ہی سوہان روح ہے کہ ان کی تھانے آمد پر تھانیدار نور دین تعظیماً نہ اُٹھے دودھ پتی والی چائے کا آرڈر نہ دے اور طنزاً کہے۔ ’’چودھری! بوڑھ دے درخت تھلے بیٹھ جا‘ میں فارغ ہو کے تیری درخواست سُناں گا‘‘۔ پنجاب کی حد تک ان کے پاس ELECTIBLES ہیں۔ ’’ہیوی ویٹس‘‘ جنہیں پارٹی کی مدد کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی ممبران کا ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ انہیں ٹکٹ دینے کی سو فیصد یقین دہانی کروائے۔ پھر مقصد اگر لوٹ کھسوٹ ہو یا آپا دھاپی ہو تو خان سے انہیں کیا مل سکتا ہے۔ ٹکے کی یافت نہیں ہوگی۔ میاں صاحب نے مظلومیت کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے اس سے ایک عام پنجابی ووٹر کسی نہ کسی حد تک متاثر ہوگا۔ بایں ہمہ وہ مولوی مدن والی بات اس بار مشکل ہوگی۔ نہ اپنی مرضی کے ROs ہوں گے‘ نہ زیراثر پریذائیڈنگ آفیسر، نہ وہ چودھری جس نے عدلیہ کی تاریخ میں کئی گل کھلائے۔ خان کے قدم یقیناً دن بدن آگے بڑھ رہے ہیں اور یہ (ن) لیگ کے ساتھ NECK AND NECK چل رہا ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں کسی طور کامیاب ہو جائے گی۔ الطاف حسین کی پارٹی کا شیرازہ بکھر چکا ہے‘ مہاجر ووٹ بُری طرح بٹ چکا ہے‘ کراچی میں ہر بڑی پارٹی کچھ نہ کچھ سیٹیں لے جائے گی۔ ایم کیو ایم کی BARGAINING POWER AND NUIASANCE ختم ہو جائے گی۔ پنجاب میں پیپلز پارٹی آٹھ دس سیٹیں بمشکل نکالے گی۔ خیبر پی کے میں حکومت تو تحریک انصاف ہی بنا پائے گی لیکن مولانا فضل الرحمٰن کا کانٹا اس کے حلق میں اٹکا رہے گا۔ اگر ایم ایم اے اس وقت تک قائم رہی تو مشکلات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ بلوچستان سرداروں میں بٹ جائے گا‘ مینگل، مری، زہری‘ بزنجو‘ اچکزئی جس شخص کے پاس مرکزی حکومت ہوگی وہ ہی صوبے میں بھان متی کا کنبہ جوڑے گا۔ گویا امکانات معلق پارلیمنٹ کے ہیں۔
(5) ان حالات میں حکومت کون بنا پائے گا؟ بظاہر خان کے چانسز زیادہ ہیں لیکن راستے میں کئی گڑھے ہیں اور نہنگ حلقوم کھولے کھڑے ہیں۔ ہمہ مقتدر طاقتیں اور ’’ان داتا‘‘ اس کی تیز قدمی سے خائف ہیں۔ سیاسی دبنگ خان اور فلمی دبنگ خان میں فرق ہوتا ہے پھر شریف برادران نے اپوزیشن میں رہ کر اس کو سکھ کا سانس نہیں لینے دینا۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ہڑتال‘ احتجاج یا سکینڈل کھڑا ہوگا احتساب کہہ دینا آسان ہے ہر قدم پر قانونی دیوار کھڑی ہوگی۔ EUGEN`S STABLE صاف کرنا فرد واحد کے لئے مشکل ہو جائے گا۔ بالغرض بحث کی خاطر مخلوط حکومت شریف خاندان کو مل جاتی ہے تو چھ ماہ کے اندر ایک معجزہ رونما ہوگا۔ حکومت میں شریک جماعتیں بڑی حیرت کے ساتھ اپنے ان ممبران کو دیکھیں گی جو انہیں چھوڑ کر فارورڈ بلاک بنا چکے ہوں گے۔