بلوچستان کا بحران

مارچ نوید بہار ہوتا ہے رنگ و خوشبو کے قافلے پنجاب کے سرسبز میدانوں میں اترتے ہیں مشام جان کو معطر کرتے ہیں لیکن اب کی بار مارچ آمد بہار کے ساتھ ساتھ سیاسی اتھل پتھل کی نوید لا رہا ہے حکومت کی آئینی مدت میں اگرچہ صرف چند ماہ رہ گئے ہیں لیکن اسکے تسلسل کے حوالے سے سوالات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی پیروی کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال، ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو حکومت مدت پوری کرتے نظر نہیں آتی۔ اسی طرح بلوچستان اسمبلی میں موجودہ وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کیخلاف عدم اعتماد نئی سازش بن کر طلوع ہوئی ہے۔ جس کا بنیادی مقصد نئے وزیراعلیٰ سے اسمبلی تحلیل کروا کے سینٹ کے انتخابی عمل کو معطل کرانا ہو سکتا ہے (ن) لیگ عدم اعتماد کے جن کو سیاسی بوتل میں بند کرنے کیلئے جنتر منتر کر رہی ہے جناب نواز شریف کو خود وہاں خیمہ زن ہونا چاہئے تھا کہ اپنی حکومت بچاتے۔ زہری قبیلے سے تعلق رکھنے والے چیف آف جھالا وان نواب ثناء اللہ زہری بیچ منجھدار بڑے مطمئن ہیں انکے دادا سردار دودا خان زہری قبائلی سردار اور تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے جنہوں نے قیام پاکستان کیلئے بلوچستان سے حمایت کے حصول میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چیف آف جھالاوان ہونا بلوچستان کے قبائلی نظام میں انکی اصل شناخت انکی یہی قوت ہے۔ شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت نصف مدت کی تکمیل پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی وزارت اعلیٰ کے بعد نواب ثناء اللہ زہری مسلم لیگ (ن) کی نمائندگی کرتے ہوئے اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے تھے۔ 24دسمبر 2015ء سے وزیراعلی بلوچستان بن کر معاملات بخوبی چل رہے تھے کہ اچانک تحریک عدم اعتماد کا سانپ نکل آیا۔ وزیر ماہی گیری میر چاکر ڈومکی کا استعفیٰ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا۔ لیکن وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے استعفیٰ نے اسے تحریک کی صورت مہمیز دی۔ مشیر وزیراعلیٰ برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ماجد ابڑو بھی بعدازاں مستعفی ہو گئے۔ اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے میر عبدالقدوس بزنجو اور سید آغا رضا نے چودہ ارکان صوبائی اسمبلی کے دستخطوں سے تحریک عدم اعتماد جمع کرادی۔ آئین کے آرٹیکل 136 کے تحت یہ تحریک پیش کی گئی۔ سید آغا رضا مجلس وحدت المسلمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ وجہ وعدے پورے نہ ہونا بتائی گئی ہے۔ قدوس بزنجو بلوچستان اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر ہیں، وہ بھی عدم اعتماد کی اس تحریک کا حصہ ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ہمارا آئینی اور سیاسی حق ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر زمرک اچکزئی، جے یو آئی (ف) کے خلیل الرحمن، بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر سردار اختر مینگل، مسلم لیگ (ق) کے میر عبدالکریم نوشیروانی اور ڈاکٹر رقیہ ہاشمی، میر امان اللہ نوتیزئی بھی اس تحریک میں حصہ دار ہیں۔ بلوچستان اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 65 ہے۔ اس میں 51 پر براہ راست انتخاب سے ارکان آتے ہیں۔ ہر ضلع سے اپنے اپنے حلقوں کی نمائندگی یہ ارکان کرتے ہیں۔ گیارہ نشستیں خواتین اور تین غیر مسلموں کیلئے مختص ہیں۔ 33 ارکان کی حمایت جسے حاصل ہوگئی وہ وزارت اعلیٰ کا حقدار قرار پاجائیگا۔ نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت 53ارکان کی حمایت سے جمی ہوئی تھی۔ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق)، جے یوآئی (ف) اور مجلس وحدت المسلمین حکومتی اتحاد میں شامل تھیں۔جے یوآئی (ف) کے پاس آٹھ نشستیں ہیں۔ بی این پی۔ ایم اور بی این پی۔ اے اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ اپوزیشن کے ارکان کی کل تعداد بارہ ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری پر الزامات' مختلف لوگ مختلف بیان کرتے ہیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ انکے انداز حکمرانی سے اختلاف ہے۔ کوئی بتاتا ہے کہ اسے فنڈز نہیں مل رہے۔ اپوزیشن کے رہنماؤں کی بپتا ہے کہ انکے فنڈز نہ صرف روک لئے گئے بلکہ اس پر فیصلہ بھی معرض التوا میں ہے۔ اپوزیشن ارکان نے حکومتی باغی گروپ کو بھی مکمل حمایت کا اشارہ دیا ہے۔ ثناء اللہ زہری کو بچانے کیلئے لیگی قیادت بھی سرگرم ہے۔ نوازشریف کی مولانا فضل الرحمن اور اسفند یار ولی سے ملاقات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ حضرت مولانا کی سیاسی رگ کسی سیاسی بحران میں پھڑک جاتی ہے اور انکے ذہن سے ایسے ایسے فارمولے شرائط سے نتھی نکلتے ہیں کہ نیٹو کی سپلائی لائن بھی بحال ہو جاتی ہے۔ ہر بند کمرے کی چابی اور ہر کٹھن مرحلے کا دارو حضرت مولانا کے ذہین دماغ کے سامنے دستیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن وہ سیاست میں ’ایک ہاتھ لے، ایک ہاتھ دے‘ کے روشن اور اصولی موقف پر کاربند ہیں۔ ایک دعویٰ کیمطابق حضرت مولانا نے وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کے بدلے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں آئندہ حکومت سازی کیلئے مسلم لیگ (ن) کی حمایت کی شرط رکھی ہے۔ اسکے علاوہ آئندہ عام انتخابات میں بعض حلقوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنا ہو گی۔ بلوچستان کابینہ میں شمولیت بھی انکی اصولی شرائط میں شامل ہے۔ سینٹ انتخابات میں بلوچستان سے کم سے کم ایک نشست دینے کا بھی وہ حق مانگتے ہیں۔ مزید برآں قبائلی علاقہ جات کے مستقبل کا فیصلہ جے یوآئی کی مرضی کے مطابق کرنے کا ’’حقیر سا‘‘ مطالبہ بھی ان شرائط میں درج ہے۔

وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، وزیر مملکت جام کمال ناراض اراکین کو منانے کیلئے بلوچستان پہنچ گئے ہیں۔ بعض کے نزدیک ثناء اللہ زہری مستعفی ہو سکتے ہیں تو کئی انکی برطرفی کے دعوے کر رہے ہیں۔ نواب ثناء اللہ زہری کے استعفیٰ کی خبر تو سردست دم توڑ گئی ہے کیونکہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ثناء اللہ زہری سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے علاوہ سردار یعقوب خان ناصر، جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ، جام کمال، محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو کی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ان زعما کا اعتماد ہے کہ آئندہ دو سے تین روز میں بعض ناراض اراکین واپس حکومتی کیمپ میں آجائینگے۔ تحریک عدم اعتماد کے محرک میر قدوس بزنجو دعویدار ہیں کہ ہمیں مطلوبہ اراکین کی حمایت حاصل ہے لہٰذا تحریک با آسانی کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی جان اچکزئی کہتے ہیں اس بحران سے بھی (ن) لیگ باہر نکل آئیگی۔ بلوچستان میں قبائلی سردار زندہ حقیقت ہیں۔ انکی باہمی رنجشیں اور دشمنیاں، مسابقتیں اور مقابلے گویا فطری اور روایات وتاریخ کے عین مطابق ہیں۔ محمود اچکزئی کو سازش نظرآرہی ہے۔ لیکن ان کا پورا خاندان اقتدار کے دستر خوان پر براجمان ہے۔ یہ کس کی سازش ہے؟نواب ثناء اللہ خان زہری نے فون پر نوازشریف سے سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے میں مدد مانگی ہے۔ زہری کا کہنا تھا کہ ان کیخلاف تحریک عدم اعتماد سے آئندہ الیکشن میں پارٹی کو نقصان ہو سکتا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت غیر جمہوری قوتوں کی سازشوں کامقابلہ کررہی ہے۔ مسلم لیگ (ن)جمہوریت اور جمہوری تسلسل پر یقین رکھتی ہے۔ بلوچستان میں بھی جمہوریت مخالف سازش کوناکامی کا سامنا ہوگا۔ سردار یعقوب ناصر کہتے ہیں کہ پارٹی بلوچستان میں مضبوط ہے۔ چند مفاد پرستوں کی بغاوت سے کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ سردار یعقوب ناصر کا اعتماد ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اکثریتی ارکان وزیراعلیٰ کے ساتھ ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی آن کودے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ نواز شریف نہیں چاہتا کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق بلوچستان میں ایک نیا اتحاد وجود میں آسکتا ہے جو ایک نئی حکومت تشکیل دے۔ یہ حکومت آئندہ انتخابات سے قبل نگران حکومت کی تشکیل تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیگی۔ سینٹ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت صوبے میں گورنر راج نہیں لگائے گی۔ اہم سوال یہ ہے کہ یہ کھچڑی پکا کون رہا ہے اور کس کیلئے دسترخوان بچھایا جا رہا ہے۔ اور یہ سب کیوں کیا جا رہا ہے اگر اس مشق کا ہدف سینٹ کے انتخاب کا راستہ روکنا ہے تو یہ ملک و قوم کیلئے نیک شگون نہیں ہے کیونکہ سیاسی عمل کو بندوق سے دبایا تو جا سکتا ہے لیکن اس سے مثبت نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ مشرقی پاکستان میں مجیب کو اقتدار نہ دیکر غدار بننے کی راہ پر ڈال دیا گیا حقیقی نمائندوں کو نکال کر قومی اسمبلی کی بندر بانٹ کی گئی نتیجہ سقوط ڈھاکہ تھا اور کراچی میں جماعت اسلامی اور نورانی میاں کی جماعت کو خود سری کی سزا دینے کیلئے ایم کیو ایم کا پودا لگایا گیا انجام سب کے سامنے ہے۔ 4 ماہ رہ گئے ہیں صبر اور انتظار کرلیں سینٹ کے انتخاب کو روکنے کا تجربہ نہ کریں تو بہتر ہو گا۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن