ایک بار حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ سے ان سے ان مصائب کی داستان سنانے کی فرمائش کی جو ان پر کفار مکہ کی طرف سے ڈھائے گئے۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین کو کپڑا اٹھاکر اپنی پشت دکھائی تو وہ حیران رہ گئے تمام پشت اس طرح سفید تھی جس طرح برص میں مبتلا مریض کی ہوا کرتی ہے۔ آپ نے فرمایا : امیر المومنین آگ دہکاکر مجھے اس پر لٹادیا جاتا۔ یہاں تک کہ میری پشت کی چربی ہی اسے سرد کیا کرتی ۔(ابن اثیر)
حضرت خباب نے عمر کے آخری حصہ میں کوفہ میں سکونت اختیار کرلی تھی ۔ اپنے وصال سے پہلے انھیں نہایت ہی تکلیف دہ ایک اورمرحلے سے گزرنا پڑا اوریہ مرحلہ ایک نہایت اذیت رساں مرض کا سامنا تھا۔وہ پیٹ کے کسی ایسے مرض میں مبتلا ہوئے کہ اطباء نے داغنے کو اس کا علاج تجویز کیا ،بڑھاپے کے اس عالم میں اس طریقہ علاج سے انھیں بڑی اذیت ہوئی۔ قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے حاضر ہوئے ، وہ (اس عالم میں بھی اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے)باغ کی تعمیر میں مصروف تھے ، ہمیںدیکھ کر (اپنے کمالِ تقویٰ کی بناپر ) فرمایا: مسلمان کو ہر چیز میں ثواب ملتا ہے۔ سوائے اس کے جو وہ اس مٹی میں لگاتا ہے۔ انہوںنے سات باراپنے پیٹ پر داغنے کا علاج کیا تھا(مگر افاقہ نہ ہوا)فرمانے لگے اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں موت کی دعا ء مانگنے سے منع نہ فرمایا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعاء کرتا کیونکہ میر امرض بہت دراز ہوگیا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا کہ ہمارے وہ ساتھی جو دنیا سے چلے گئے دنیا ان کا کچھ ثواب کم نہ کرسکی ہمیں ان کے بعد جو کچھ ملا ہم نے اس کے لئے مٹی کے علاوہ کوئی جگہ نہ پائی۔ (ترمذی ، ابن ماجہ)
حالت زیادہ نازک ہوئی تو کچھ لوگ عیادت کے لیے آئے اورکہا اے ابو عبداللہ کیا آپ موت سے خوفزدہ ہیں، آپ کو توخوش ہونا چاہیے کہ آپ دنیا چھوڑنے کے بعد حوض کوثر پر اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات کریں گے ۔ یہ سن کر آپ پر گریہ طاری ہوگیا، فرمایا : واللہ ! میں موت سے نہیں گھبراتا،تم نے میرے ان ساتھیوں کا ذکر کیا جنہوںنے دنیا میں کوئی اجر نہیں پایا، دنیا سے جانے کے بعد یقینا انھوںنے اجر پالیا ، ہم ان کے بعد دنیا میں رہے دنیا کی نعمتوں سے اس قدر حصہ پایا کہ اندیشہ ہورہا ہے کہ وہ ہمارے اعمال کا اجر ہی نہ قرار پاجائے۔(ابن سعد)
آپ نے وصیت فرمائی کہ میری تدفین شہر سے باہر کھلے میدان میں کرنا، آپ تدفین کے بعد اہل کوفہ نے آپ کے جوار میں تدفین شروع کردی ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے آپ کے مرقد پر کھڑے ہوکر آپ کو یوں خراج تحسین پیش کیا ، خباب پر اللہ کی رحمت ہو، وہ اپنی رغبت سے اسلام لائے، بخوشی ہجرت کی زندگی جہاد میں بسر کی اور راہ حق میں بڑی صعوبتیں اٹھا ئیں اللہ صالحین کے اعمال ضائع نہیں کرتا۔(ابن اثیر)