چکوال(صباح نیوز + آئی این پی) سابق وزیراعظم و پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف نے کہا ہے مجھے نااہل کرنے کے فیصلے کے بعد ملک میں انتشار پیدا ہورہا ہے۔عوام ملک کو اندھیروں میں دھکیلنے والوں کے چہروں کو یاد رکھیں میرے خاندان کو 7 سال تک باہر رکھا گیا، والد کا انتقال ہوا تو ہمیں آنے نہ دیا میں یہ تمام زخم نہیں بھول سکتا لیکن قوم کی ترقی کے لئے سب بھولنا پڑتا ہے، بہت ظلم سہے لیکن جب موقع ملا عوام کی خلوص کے ساتھ خدمت کی۔ چکوال میں مسلم لیگ (ن)کے مرحوم رہنما چوہدری لیاقت کی رہائش گاہ پر تعزیتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوازشریف کا نے کہا 2013 تک ملک کو اندھیروں میں دھکیل دیا گیا تھا، عوام ان چہروں کو یاد رکھیں جب ڈکٹیٹر اور جمہوریت کا راگ الانپنے والوں نے پاکستان کے عوام پر لوڈ شیڈنگ کا عذاب مسلط کر رکھا تھا۔ وہ لوگ اب کہاں ہیں۔ انہوں نے کہا آج دہشت گردی پھر سر اٹھا رہی ہے تو شاہد خاقان عباسی سے نہیں 28 جولائی کو فیصلہ کرنے والوں سے پوچھا جائے، عوام جاننا چاہتی ہے نوازشریف نے کون سے 10 روپے چوری کئے، مجھ پر ایک دھیلے کی کرپشن کا الزام نہیں، اتنے مہینے ہوگئے یہ نہیں پتا چل سکا کہ مجھ پر الزام کیا ہے، نوازشریف نے کرپشن کی ہوتی تو آپ نکالتے ہوئے بھی اچھے لگتے، لیکن آپ نے اقامے پر وزیراعظم کو نکال دیا اور کہا کہ بیٹے سے تنخواہ نہیں لی ،خیالی تنخوا ہ پر نکال رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا عوام ووٹ دے کر وزیراعظم منتخب کرتے ہیں اور 5 آدمی اسے نکال دیتے ہیں یہ کہاں کا انصاف ہے، کیا عوام کے ووٹ کا یہی تقدس اور اہمیت ہے کہ کوئی بھی اپنی مرضی سے ووٹ پھاڑ کر پھینک دے، یہ ناانصافی نہیں چلے گی اب عوام کو سامنے آنا ہوگا اور فیصلہ کرنا ہوگا یہ ملک کیسے چلانا ہے۔ اور پوچھنا ہوگا نوازشریف کو کیوں نااہل کیا گیا۔ انہوں نے کہا میں نے ہمیشہ خلوص نیت سے پاکستان کی خدمت کی۔ ہمیں ملک سے بے دخل کیا گیا‘ 7 سال تک وطن واپس نہیں آنے دیا گیا، یہاں تک کہ والد کے انتقال پر بھی ملک نہیں آنے دیا گیا، لیکن پھر عوام نے اپنا فیصلہ دیا اور ہمیں 2013 میں منتخب کیا، پچھلے 4 برسوں میں عوامی خدمت کے جذبے میں کمی نہیں آئی۔ انہوں نے کہا جو زخم لگے انہیں پاکستان کی خاطر بھلانا چاہتا ہوں، زخم در زخم نہ لگا کیونکہ یہ زخم صرف نوازشریف کے سینے پر نہیں لگتے بلکہ پاکستانی قوم کے سینے پر بھی لگ رہے ہیں۔ میرا وژن تھا کہ ملک میں سڑکیں اور موٹرویز بننی چاہئیں، یہاں کاشتکار خوشحال زندگی بسر کریں، تاجر مزدور اور غریبوں کو بھی روزگار میسر ہو، اور اس وژن کے لیے ہم نے دن رات کام کیا، بجلی کے اتنے منصوبے لگائے آج لوڈشیڈنگ خدا حافظ کہہ رہی ہے۔ انہوں نے کہا عوام 2013 کو یاد رکھیں جب ملک میں ہر جگہ پر دہشت گردوں کا راج تھا، ہم نے دہشتگردو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپریشن کیا اور دہشتگردی ختم کرکے رکھ دی۔ آئی این پی کے مطابق نواز شریف نے کہا جن لوگوں نے ملک کو اندھیروں میں دھکیلا ان میں ڈکٹیٹر اور سیاستدان دونوں شامل ہیں، جمہوری استحکام کیلئے ووٹ کا تقدس بحال کرنا ہو گا، عوامی رائے کی تکریم کرنا ہو گی، مجھے نااہل کرنے کے بعد جو حالات خراب ہوئے اس کا ذمہ دار شاہد خاقان عباسی نہیں‘ سڑکیں اور بجلی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں، 28 جولائی کے فیصلے کے بعد پھر مہنگائی سر اٹھانے لگ گئی ہے، 2013ء میں ملک میں دہشت گردی کا راج تھا، ہم نے دہشت گردی کو ختم کر دیا،سی پیک کی صورت میں 56ارب ڈالر کی انویسٹمنٹ پاکستان میں آرہی ہے، آنے والے وقت میں چکوال پاکستان کا خوبصورت ترین شہر بن جائے گا، عوام کا جذبہ دیکھ کر لگتا ہے کہ حیدر سلطان کامیاب ہو گا اور ملک و عوام کی خدمت کرے گا۔آن لائن کے مطابق نواز شریف نے کہا 28جولائی کے فیصلے جس میں پانامہ کی بجائے اقامہ پر ایک منتخب وزیراعظم کو گھر بھیجا گیا، کے نتیجے میں اب مہنگائی بھی بڑھ رہی ہے ، دہشتگردی نے بھی سر اٹھانا شروع کردیا ہے اور ملک میں بے چینی ہے۔ بہرحال پوری قوم نے پانچ ججوں کے فیصلے کو مسترد کر دیا ہے، مشرف نے ملک بدر کرکے زخم دئیے، میر ے زخموں کو تازہ نہ کرو، ملک و قوم کی خاطر ان زخموں کو بھولنے دو، پانامہ کی بجائے اقامہ پر نکالنے والے 10روپے کی چوری ہی بتادیں۔
لاہور (خصوصی رپورٹر) سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر محمد نوازشریف سے گزشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے جاتی امراء رائے ونڈ میں ملاقات کی۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ میاں نوازشریف نے مفتاح اسماعیل کو ہدایات دیں کہ 15 فروری تک برآمدکنندگان کے سیلز ٹیکس سو فیصد ری فنڈ کئے جائیں۔ انفرادی انکم ٹیکس میں فوری کمی لائی جائے اور اس کی شرح 15 فیصد سے زائد نہیں ہونی چاہئے۔ یہ بھی ہدایت کی کہ ایک لاکھ روپے ماہانہ آمدن پر کوئی انکم ٹیکس نہ لیا جائے۔ ٹیکس نرخوں کے بارے میں صنعتکاروں کی شکایات کا ذکر کرتے ہوئے نوازشریف نے ٹیکس کے نرخوں میں کمی لانے کی بھی ہدایت کی تاکہ پاکستانی صنعتکار جنوبی ایشیا کے صنعتکاروں کا مقابلہ کرسکیں۔