ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ وطن عزیز میں گدھوں کی منڈیاں زیادہ تعداد میں سامنے آنے لگی ہیں۔ اس صورتحال سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پاکستان میں گدھوں کی اہمیت اور ضرورت میں اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں تک اہمیت کی بات ہے تو اس میں مالی نفع سے لیکر سہولت تک ہر مرحلے میں مسلمہ اہمیت موجود رہتی ہے۔ مالی نفع ابتداء میں یہی تھا کہ گدھے بار برداری کے کام آتے ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ گدھا ریڑھی کا سلسلہ شروع ہوا تو بار برداری میں مختلف طریقوں سے آمدن کا ذریعہ بنایا گیا۔ کئی دہائیوں بلکہ صدیوں تک گدھے صرف باربرداری کیلئے استعمال ہوتے رہے پھر خدا جانے گدھوں کے مالکان کو شیطان مردود نے کیسے اپنا ساتھی بنانا شروع کردیا۔ ہوا یوں کہ آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام کے مصداق گدھوں کو ذبح کرکے کھال اتار کر گوشت مخصوص ضرورت مندوںکے حوالے کر دیا جاتا رہا۔ گوشت مختلف ہوٹلوں اور بار بی کیو شاپس میں گاہکوں کی لذت کام و دہن کے کام آتا رہا۔ اللہ بھلا کرے شہبازشریف کا جو اس وقت وزیر اعلی پنجاب تھے انہوں نے پنجاب فود اٹھارٹی قائم کرنے کی منظوری دے دی تھی۔ پنجاب فود اٹھارٹی کی خاتون سربراہ کو مکمل بااختیار بنایا گیا تھا چنانچہ دودھ گوشت وغیرہ سے لیکر صحت و صفائی کی صورتحال پر چھاپے مارے جانے لگے۔ اسی کارروائی کے دوران گدھوں کے گوشت کو سپلائی کرنے والوں کیخلاف بھی ایکشن ہونے لگا تو معلوم ہوا کہ کئی چھوٹے بڑے شہروں میں یہ کاروبار کامیابی سے ہو رہا ہے پنجاب فود اتھارٹی کی سخت کاروئی سے ناجائز آمدن کے عادی لوگوں نے ایک نیا راستہ تلاش کر لیا۔ اب وہ گدھے کی کھال کو زیادہ قیمت پر حاصل کرنے لگے تو گوشت کی سپلائی کم ہونے لگی۔ یک نہ شد دو شد۔۔ پہلے گدھے کا گوشت اور کھال نہایت سستے داموں میسر ہوتا تھا۔ چھاپہ مار کارروائی سے کام مشکل ہوا تو ان اشیاء کے دام یوں بڑھ گئے کہ گوشت کی سپلائی تو نصف سے بھی کم رہ گئی البتہ کھال کے دام کئی گنا بڑھ گئے۔ کاروبار کرنے والوں نے گودام بنا لئے جہاں ہزاروں کھالیں رکھی جاتی تھیں۔ ان کھالوں کو بیرون ملک بھی بجھوایا جاتاتھا۔ پھر یوں ہوا کہ بیک وقت کئی گوداموں سے بڑی تعداد میں کھالیں برآمد ہونے لگیں۔ چنانچہ اس صورتحال کی وجہ سے گدھے کے گوشت کا دھندہ رفتہ رفتہ کم ہو گیا لیکن کھالوں کا کاروبار چل رہا ہے۔ جو لوگ مستقل طور پر (چھوٹے بڑے) ہوٹلوں اور بار بی کیو شاپس سے شکم پروری کیا کرتے تھے انہیں بھی اس شوق کو پورا کرتے ہوئے خوف محسوس ہونے لگا۔ تصور کریں تو گدھے کے گوشت کو کھانا کتنا مکروہ اور گندہ شوق ہے۔ ان وجوہ سے گدھوں کو موت کے گھاٹ اتار کر گوشت اور کھالیں فروخت کرنے کا دھندہ قدرے کم ہو گیا ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ گدھوں کی جو شامت آئی ہوئی تھی اس میں کمی آیء ہے۔ جدید ٹیکنالوجی سے بار برداری کیلئے اب چنگ چی رکشے اور پک اپ کا استعمال بھی ہونے لگا ہے اس لئے گدھوں کو بار برداری کیلئے اس قدر استعمال نہیں کیا جا رہا ہے جتنا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ گدھے کا نام اس کی خوبیوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں بہت دلچسپ باتیں عام ہیں۔ ایک دور تھا جب کسی سے نفرت کا اظہار کرنے یا ڈانٹنے کیلئے گدھا کہا جاتا تھا تو مقصد واضح ہو جاتا تھا ۔ ملازم سے جب بہت زیادہ کام لیا جاتا تھا تو ظالمانہ مار پیٹ کرتا تھا تو دیکھنے والوں کوگدھے پر ترس نہیں آتا تھا کہ گدھا ہے اس پر مارپیٹ کا اثر نہیں ہوتا۔ ادب اور گفتگو میں گدھے کو گھٹیا ظاہر کرنے کے لئے یہ الفاظ استعمال کئے جاتے تھے کہ گدھے اور گھوڑے میں فرق کرنا ضروری ہے۔ سیاست میں جب ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہونے لگی تو اس وقت بھی گدھے کے حوالے سے ریمارکس دیئے جاتے تھے۔بات ہو رہی تھی کہ کچھ عرصے سے گدھوں کی منڈیوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ لاہور، ملتان، سکھر، بدین، حیدرآباد، جھنگ، حافظ آباد اور دیگرشہروں میں مختلف اوقات میں گدھوں کی منڈیاں لگتی ہیں۔ بیس پچیس ہزار سے ساٹھ ستر ہزار روپے تک ان کی بولی لگائی جاتی ہے۔ البتہ جو گدھے اچھی نسل کے ہوتے ہیں ان کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے ان کی قیمت زیادہ لگائی جاتی ہے۔سیاست دان ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہتے ہوئے ہاتھا پائی پر بھی اتر آتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہارس ٹریڈنگ اب کم اور گدھوں کی خریدوفروخت زیادہ ہونے لگی ہے۔ وفاداریاں اس قدر زیادہ اور اتنی تیزی سے تبدیل ہونے لگی ہیں کہ سیاسی گھوڑوں کی بجائے سیاسی گدھوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔چنانچہ سیاست میں بھی گدھوں کی منڈیاں لگنے لگی ہیں یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید دور کی بار برداری اور ضرورت کے مقابلے میں آج بھی گدھوں کی اہمیت اور ضرورت موجود ہے۔ کم خرچ بالانشین کام ہو رہا ہے بڑے بڑے جلسے اسی دم سے ہوتے ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ جب سیاسی بحران اور گرما گرمی ہو رہی ہے تو اس ماحول میں گدھوں کی منڈیاں کیوں لگ رہی ہیں اس سوال کا ایک جوال تو یہ دیا جا سکتا ہے کہ جب کم خرچ بالا نشین کے محاورے سے کام چلتا ہو تو پھر ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ نہیں ہوتی ڈونکی منڈی ہی لگا کرتی ہے۔ ڈونکی راجہ فلم کی مثال ہی لیجئے کہ ریکارڈ بزنس کر رہی ہے۔ یہ سب اس لئے ہو رہا ہے کہ گدھے کی اہمیت اور ضرورت موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی کم نہیں ہوئی تیس چالیس سال پہلے اپنے گدھے کے لوگ جانی، بابو، شہزادہ اور ناجانے کن کن ناموں سے پکارا کرتے تھے۔ ’’قدردانوں‘‘نے آج گدھے کو ’’ڈونکی راجہ‘‘ کا نام دیا ہے یعنی گدھے کی اہمیت اور ضرورت برقرار رہتی ہے اس میں کمی البتہ ہوتی رہتی ہے۔
جانی بابو سے ڈونکی راجہ تک
Jan 09, 2019