ایک لاوارث اور یتیم بچے کی پرشکوہ کہانی

وہ صرف پرائمری سکول میں اُستاد تھا کوئی غیر معمولی شخصیت نہیں تھا ، ساری زندگی غیر شادی شدہ رہا۔ پاکستان میں اس کا کوئی وارث نہیں تھا ،کوئی خاندان نہیں تھا، اس کی تعلیم کے شعبے میں بھی کوئی غیر معمولی خدمات نہیں تھیں لیکن اسے پاکستان اور برطانیہ کے اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا گیا کہ پاکستان کے اصل حکمرانوں کا استاد تھا۔وہ میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز تھے۔
میجر صاحب نے 101 سال کی طویل عمر پائی وزیراعظم عمران خان نے ان کے انتقال پر خصوصی تعزیتی پیغام کے ساتھ والہانہ انداز میں اپنے بچپن کی تصاویر بھی جاری کیں۔ میجر صاحب نے ساری زندگی اشرافیہ کے بچوں کو ابتدائی کلاسوں میں پڑھایا۔ یہی انکی واحد خوبی تھی جس نے پرآسائش زندگی کی راہیں استوار کیں اور انہوں نے ایچی سن کالج کے سرسبز و شاداب سبزہ زار کے کنارے واقع اپنے اپارٹمنٹ میں آخری سانسیں لیں جہاں سے وہ مدتوں پہلے ریٹائرڈ ہو کر رزمک اور چترال جا چکے تھے۔ ظاہر ہے پاکستان کے نظام تعلیم اور ٹوٹے پھوٹے سکولوں اور کروڑوں بچوں سے ان کا کیا لینا دینا تھا۔ میجر جیفری ڈگلس لینگ لینڈز آخر اس سفر پر روانہ ہوگئے جو سب کے مقدر میں لکھا ہے لیکن ان کی داستان حیات دلچسپ ہی نہیں حیرت انگیز اور سبق آموز بھی ہے۔ ان سب بڑے بڑے رہنماؤں اور اشرافیہ کے لئے شاید ایک مثال بھی ہے جنہوں نے ان سے علم حاصل کیا اور فیض پایا۔ ایچی سن کالج عام درسگاہ نہیں، حکمران و خواص کے بچوں کی مادر علمی، معاشرے میں بہت ہی خاص ہونے کی علامت اور اعلیٰ تعلیم کا نشان ہے، بعض کے نزدیک ’’اصل اشرافیہ کا کلب‘‘ لیکن ’’میجر‘‘ کے نام سے جانے والے جیفری کی زندگی سے اس کے کتنے شاگردوں نے سبق لیا، یہ داستان بھی کم اہم نہیں۔ وزیراعظم عمران خان، میر ظفراللہ خان جمالی سمیت اور ان گنت، ان کے شاگردوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ وہ برطانوی فوج میں میجر تھے۔
قیام پاکستان کے بعد پاک فوج کا حصہ بن گئے۔ 1947ء میں تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان میں رہنا پسند کیا اور معلم بن کر شعبہ تدریس سے آخری سانس تک وابستہ رہے۔
میجر جیفری 1917ء میں اپنے جڑواں بھائی جان الیگزینڈر لینگ لینڈزکے ہمراہ شمالی برطانیہ کے خوبصورت اور سب سے بڑے شہر ، یارک شائر‘ میں پیدا ہوئے۔ اس کے والد اینگلو امریکن کمپنی میں ملازم تھے جبکہ والدہ کلاسیکی رقص کی اُستاد تھیں اس کے والد 1918ء میں فلو کی وباء کے نتیجے میں چل بسے جس میں دنیا بھر میں لاکھوں لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
شوہر کی وفات کے بعد میجر جیفری کی والدہ برطانیہ کے جنوب مغرب میں واقع برسٹل میں اپنے میکے چلی گئی۔ دس سال کی عمر تھی کہ میجر جیفری کی والدہ بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر زمین میں اُتر گئی۔ پھر جیفری اور اسکے بھائی کی کفالت نانا کے ذمے ہوگئی۔ اسی سال اس کے نانا کا انتقال ہونے کے بعد وہ مکمل طور پر بے آسرا ہوگئے۔ ایک خاندانی دوست نے کنگز کالج ٹانٹن میں داخل کرا دیا۔ ان کے بڑے بھائی نے برسٹل میں یتیموں کے سکول میں وظیفہ حاصل کیا۔ جولائی 1935ء میں جیفری لینگ لینڈز نے اے لیول تعلیم مکمل کرکے لندن میں استاد کے طور پر اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ ستمبر1936ء میں ریاضی اور سائنس کے اُستاد کے طور پر لندن کے ایک سکول میں اس نے دوسری جماعت کے بچوں کو پڑھانا شروع کردیا۔
1939ء میں دوسری جنگ عظیم نے اس کی زندگی کو بھی ایک بارپھر بدل دیا۔ اس مرتبہ یہ تبدیلی برطانوی فوج کا حصہ بننا تھا۔ اسے ایک سپاہی کے طورپر شامل کرلیاگیا۔ 1942ء میں لینگ لینڈز جنگجو کمانڈو بن گئے اور ’ڈیپی ریڈ‘ چھاپہ مار کارروائیوں میں حصہ لیا۔ شمالی فرانس کا یہ شہر ’ڈیپی‘ دریائے آرکوئیس کے دھانے پر واقع ہے۔ شہرکی آبادی کا اندازہ 2006ء میں 34 ہزار سے زائد تھا۔
’انگلش چینل‘ کے نام سے پہچانی جانے والی آبی گزر گاہ بحراوقیانوس سے نکلتی ہے اور فرانس اور برطانیہ کے درمیان سے گزرتی ہے۔ یہ دنیا کے بحری جہازوں کی ایک مصروف آبی گزرگاہ کے طورپرمعروف ہے۔ لینگ لینڈز نے اسی فرانسیسی شہر پر 19اگست 1942ء میں مارے جانے والے چھاپوں میں بطور کمانڈوحصہ لیا تھا جس میں اتحادی فوج نے چھ گھنٹے تک جرمن فوجوں کا مقابلہ کیا لیکن نقصان اتنا بھاری ہوا کہ اتحادیوں کو وہاں سے واپس بھاگنے میں ہی عافیت نظرآئی۔
1944ء میں لینگ لینڈز برصغیر آگیا۔ یہاں اس کی آمد فوجی دستوں کے رضاکار کے طور پر ہوئی تھی۔ تین سال اس نے بنگلور میں زیر تربیت افسران کے بھرتی بورڈ میں کام کیا۔وہ نوجوان افسران کی بھرتی اور تربیت کے انچارج مقرر ہوئے۔ یہاں انہیں ٹروپ سارجنٹ میجر کے عارضی درجے پر ترقی مل گئی۔ تین ستمبر 1944ء میں اسے ہنگامی بھرتی کے تحت برطانوی انڈین فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ کے طورپر تقرری مل گئی۔ یہاں سے اس کی زندگی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ وہ بنگلور سے عسکری تربیت کے لئے مشہور ڈیرہ دون فوجی اکیڈمی چلے گئے۔
1947ء میں تقسیم برصغیر کے مرحلے پر لینگ لینڈز نے اپنے لئے پاکستان کا انتخاب کیا اور راولپنڈی تبادلہ ہوگیا جہاں اس نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس سفر کے دوران جب وہ پاکستان آرہے تھے، ٹرین پر حملہ ہوا جس میں ان کی جان بچ گئی تھی۔ چھ سال تک پاک فوج میں انہوں نے انسٹرکٹر کے طورپر کام کیا۔ پاک آرمی کے ساتھ کنٹریکٹ مکمل ہونے پر برطانوی فوجی دستوں کی برطانیہ واپسی شروع ہوگئی۔ اس وقت کے صدر ایوب خان نے لینگ لینڈز سے کہاکہ وہ رک جائیں اور پاکستان میں کام کریں۔ انہیں ایچی سن کالج لاہور میں ریاضی اور انگریزی کے استاد کے طورپر خدمات کی فراہمی کی پیشکش کی۔ پچیس سال ایچی سن کالج میں پڑھانے کے بعد وہ ’کیلے ہائوس‘ کے ’ہائوس ماسٹر‘ بن گئے۔ سینئر سکول سے ترقی پاکر وہ ’پری سکول‘ کے ہیڈ ماسٹر بن گئے۔
1979ء میں اس وقت کے صوبہ سرحد موجودہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلی نے شمالی وزیرستان میں واقع کیڈٹ کالج رزمک میں انہیں پرنسپل کے عہدے کی پیشکش کی جسے انہوں نے قبول کرتے ہوئے اپریل 1979سے ستمبر 1989ء تک خدمات انجام دیں۔ اس دوران قبائلیوں نے 1988ء میں انہیں اغواء کرلیا اور وہ چھ دن تک یرغمال رہے۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے 2012ء میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’یہ (سلوک) اتنا برا نہیں تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میری عمر 71 سال ہے تو وہ (اغواکار) بہت نرم طبیعت ہوگئے تھے۔جب میں وہاں سے روانہ ہوا تو انہوں نے میرے ساتھ تصویر کھنچوانے پر اصرار کیا۔‘‘
1989ء کے اواخر میں وہ چترال آگئے جہاں پہلے قائم ہونے والے پرائیویٹ سکول کی ذمہ داری انہوں نے سنبھال لی جو بعدازں انہی کے نام پر ’لینگ لینڈز سکول اینڈ کالج‘ کہلایا، اس سکول کا نام ان کے نام سے موسوم کرنے کا مقصد ان کی خدمات کا اعتراف کرنا تھا۔ یہ سکول مقامی ڈپٹی کمشنر جاوید مجید نے ستمبر 1988ء میں قائم کیا تھا جو رفتہ رفتہ لینگ لینڈز کی قیادت میں ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنتا گیا اور پچیس سال تک وہاں خدمات انجام دیں۔
2008ء میں انہیں دل کی تکلیف ہوئی جس کی بناء پر انہوں نے چورانوے سال کی عمر میں ستمبر 2012ء میں ریٹائرمنٹ لے لی۔ وہ علاقے میں ایک کلیدی شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ سماجی بہتری کے لئے کام کرنے والے ایک مقامی شخص سلطان محمود کا ان کے بارے میں تبصرہ تھا کہ ’’میجر ایک انمول انسان ہیں۔‘‘ روزانہ ان کا ایک ہی طرح کا ناشتہ ہوتا تھا۔ ایک شخص ہر صبح ان کے لئے اْبلا ہوا انڈہ اور دو کپ چائے لاتا۔ وہ ایک جھونپڑے میں رہائش پذیر تھے اور معمولی تنخواہ لیتے تھے۔ عمر گزار دی لیکن شادی نہیں کی۔
اکتوبر 2017ء میں وہ سو سال کے ہوگئے۔ زندگی کا آخری سال انہوں نے ایچی سن کالج کے گراؤنڈز پر واقع اپارٹمنٹ میں گزارا جس کا انتظام ان کے سابقہ شاگردوں نے کیا تھا۔
ایک سو ایک سال کی عمر میں دوجنوری 2019ء کو مختصر علالت کے بعد وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے ریٹائرمنٹ لے کر مٹی اوڑھ کر سوگئے۔ یتیمی، جدوجہد اور چیلنجز کی زندگی سے نجات پاگئے۔
وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں اپنے استاد کو خراج عقیدت ان الفاظ میں پیش کیا کہ ’’اپنے استاد کے انتقال کی خبر سُن کر بے حد صدمہ ہوا۔ ہمارے اُستاد ہونے کے علاوہ انہوں نے اس زمانے میں ہم میں شمالی علاقہ جات کی سیاحت کی جستجو جگائی تھی جب شاہراہ قراقرم ابھی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔‘‘ عمران خان نے کہاکہ ’’میجر نے پاکستان کی اشرافیہ کے بچوں کو اعلیٰ ترین کیرئیرز کی طرف رہنمائی فراہم کی۔ وہ وقت و حالات میں ثابت قدم رہے۔‘‘انہیں برطانوی اعزازات کے علاوہ حکومت پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے اعزازت بھی عطا ہوئے۔
یہ ایک انگریز یتیم اور لاوارث بچے کی پرشکوہ کہانی ہے جس نے پلٹ کر برطانیہ کی طرف نہ دیکھا کمال دانائی سے اپنا رشتہ ناتا پاکستان کی اشرافیہ سے جوڑ لیا تھا وہی اس کے وارث تھے جب وہ رخصت ہوا تو عظمت اس پر ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہی تھی پاکستان کا وزیراعظم اسے یاد کرکے غم زدہ ہو رہا تھا۔
الوداع Major Geoffrey Langlands الوداع ۔

محمد اسلم خان....چوپال

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...