آبادی میں ہوشربا اضافہ اور اس کاسدباب

چیف جسٹس پاکستان جناب ثاقب نثار صاحب نے دیامیر بھاشا ڈیم کے بعد پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کا نوٹس لے کر قوم کی توجہ ایک اہم مسئلہ کی طرف مبذول کرائی ہے اور ایک ایسے مسئلے کو جسے ماضی کی حکومتوں نے شروع کرنے کے بعد پس پشت ڈال دیا تھا۔ kick start کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ آبادی کا مسئلہ پچھلے چند سالوں میں حکومتی ترجیحات میں شامل نہیں رہا۔ جسے چیف جسٹس صاحب نے کنٹرول کرنے اور خاندان کو چھوٹا رکھنے کے لئے آگہی پیدا کرنے اور مؤثر طریقہ سے مہم کا آغاز کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ ماضی میں بہبود آبادی کے لئے مہم جس کا سلوگن ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ تھا 1980ء کی دہائی میں شروع کی گئی لیکن مثبت نتائج برآمد ہونے سے پہلے ہی معاشرہ حساس ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیاگیا تھا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے اس سنجیدہ مسئلہ کو ترجیحی بنیادوں پر جاری نہ رکھا۔ معاشرے کے بنیادی مسائل یعنی صحت اور تعلیم صرف اسی صورت میں حل ہو سکتے ہیں جب آبادی کنٹرول میں رہے۔
پاکستان کی آبادی میں ہوشربا اضافہ کا عالم یہ ہے کہ ملکی آبادی جو 1972ء میں تقریباً ساڑھے چھ کروڑ نفوس پر مشتمل تھی بڑھ کر اب بیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اگر آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی آبادی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد اکیس کروڑ سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ علاوہ ازیں چودہ سے بیس لاکھ افغان باشندے ایک طویل عرصہ سے پاکستان میں مقیم ہیں اور جن کے واپس جانے پرسوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جو یہاں پیدا ہوئے گو ان کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا، لیکن فی الحال وہ اس ملک کی آبادی کا حصہ ہیں۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ آبادی اور وسائل کے اضافہ میں مماثلت نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر یعنی دو ڈالر یومیہ کے حساب سے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ وفاقی وزیر تعلیم کے بیان کے مطابق شرح خواندگی بھی 60 فیصد سے گر کر 58 فیصد ہو گئی ہے۔
پاکستان کی آبادی میں آزادی سے لے کر اب تک سات گنا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ اس وقت دنیا میں چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور اس کو اگر روکا نہ گیا تو آئندہ تیس سال کے بعد آبادی پنتالیس کروڑ کے لگ بھگ ہو جائے گی۔ زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن حالیہ سالوں میں قیمتی اور قابل کاشت زمین ہائوسنگ سوسائٹیوں، کالونیوں اور تعمیرات کی نذر ہو چکی ہے اور یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ زراعت ملکی معیشت میں 19 فیصد اور لیبر فورس میں 41 فیصد کی حصہ دار ہے لیکن جس تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور قدرتی طور پر زرعی اجناس کی ضروریات میں اضافہ ہو رہا ہے اس لحاظ سے زراعت ترقی کرتی نظر نہیں آ رہی۔ مثلاً کپاس‘ جس پر ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری اور زرمبادلہ کمانے والی صنعت کا انحصار ہے۔ اسکی پیداوار پچھلے پانچ سالوں سے غیر متحرک ہے یعنی لگ بھگ بارہ ملین گانٹھیں اسی طرح گندم کی جو ہماری بنیادی غذائی فصل ہے صورتحال کپاس جیسی ہے۔ یعنی جمود طاری ہے۔
مردم شماری کسی ملک کی آبادی کی ساخت اور بنیادی ڈھانچہ جانچنے کا اہم ذریعہ ہوتی ہے۔ ملک کی چھٹی مردم شماری حال ہی میں انیس سال بعد کرائی گئی۔ حالانکہ قاعدہ قانون اور آئین کے مطابق مردم شماری کا انعقاد ہر دس سال بعد ہونا لازم ہے۔ اس سے حاصل شدہ اعداد وشمار حکومت، تحقیق کرنے والے اداروں اور منصوبہ بندی کرنے والوں کی آبادی کنٹرول کرنے کے لئے حکمت عملی وضع کرنے کا بہترین ذریعہ اور بنیاد مہیا کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حکومت کو آغاز ہی سے ٹھوس اقدام اٹھانے چاہئیں۔
بہبود آبادی کے لئے ایک الگ وزارت کا قیام نہایت مستحسن قدم ہو گا اگر ہم اپنے ہمسایہ ممالک پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ بھارت جس کی آبادی ایک ارب چھتیس کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک بن چکا ہے۔ وہاں آبادی میں اضافہ کی شرح 1.2 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش میں جو ہم سے 1971ء میں الگ ہوا اور جس کی آبادی اس وقت پاکستان کے برابر یا تھوڑی زیادہ تھی آبادی میں اضافہ کی شرح 1.4 فیصد سالانہ ہے اور پاکستان کی موجودہ بیس کروڑ سے زائد آبادی کے مقابلے میں وہاں کی آبادی سولہ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ ایران میں آبادی میں اضافہ کی شرح 1.4 فیصد سالانہ ہے۔ اس خطہ میں سب سے زیادہ شرح نمو پاکستان میں ہے جو کہ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق 2.1 فیصد سالانہ ہے۔ اس سلسلہ میں چین کا ذکرنہایت اہم ہے۔ وہاں آبادی 1982ء میں ایک ارب نفوس تک پہنچ چکی تھی اور موجودہ آبادی ایک ارب اکتالیس کروڑ کے قریب ہے۔ معاملہ کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے چین کی حکومت نے آبادی کنٹرول کرنے کے لئے بڑے سخت اقدام اٹھائے نتیجتاً آبادی میں بے پناہ اضافہ رک گیا اور شرح اضافہ 0.59 فیصد سالانہ سے بھی کم رہ گئی جس تیزی سے چین کے وسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور آبادی کا دبائو کم ہو رہا ہے اس حساب سے اس کی معیشت ترقی کر رہی ہے۔
آج کل پاکستان کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ ہمارے وسائل کم لیکن آبادی میں اضافہ پریشان کن حد تک زیادہ ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ باقی ملکی معاملات پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ ساتھ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے سنجیدہ اور مؤثر حکمت عملی وضع کرے اور معاشرے کے تمام طبقات کو اعتماد میں لینے کے بعد ایک جامع مہم کا آغاز کرے اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو اس میں شامل کرے۔ بہبود آبادی کے محکمہ کو جلد از جلد مکمل طور پر فعال کرنے کے علاوہ حتی الوسع وسائل مہیا کئے جائیں ورنہ جیسے اگر پانی کا مسئلہ ہنگامی بنیادوں پر حل نہ کیا گیا تو خاکم بدہن ملک قحط سالی کا شکار ہو جائے گا۔ بعینہ اگر آبادی کو بروقت کنٹرول نہ کیا گیا تو ہم پر آبادی کا خوفناک بم گرپڑیگا۔

ای پیپر دی نیشن