آئی جی تبادلہ کیس: اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات ایف بی آر کے حوالے

Jan 09, 2019

اسلام آباد (نوائے وقت نیوز+این این آئی+ آئی این پی+ صباح نیوز) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق تحقیقات کا معاملہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر مس ڈیکلریشن ثابت ہوا تو عدالت عظمیٰ اس کو بھی دیکھے گی کہ اعظم سواتی اہل ہیں یا نہیں؟۔ منگل کو چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے آئی جی اسلام آباد تبادلہ ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کیا کہ ان کے موکل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اعظم سواتی نے صرف وزارت سے استعفیٰ دیا ہے۔ ہم اس معاملے کو 62 ون ایف کے تحت دیکھ رہے ہیں۔ عدالت 184/3 میں کئی ارکان کو نااہل کر چکی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 'کیا اعظم سواتی رکن اسمبلی رہنے کے اہل ہیں؟' ان کا کہنا تھا کہ ابھی بھی وزارت پر اعظم سواتی کا نام چل رہا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب، آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی، نجیب اللہ، جان محمد، فیض محمود اور جہانزیب کے خلاف پرچہ درج کیا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو سارا کرتا دھرتا ہے، اس کے خلاف کچھ نہیں کیا؟ اس لیے کہ وہ بڑا آدمی ہے؟' جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ صرف ایک فون نہ سننے پر آئی جی تبدیل کردیا، پھر بھینس بھی نہیں نکلی جس پر عدالتی معاون فیصل صدیقی نے بتایا کہ جے آئی ٹی نے لکھا ہے کہ آئی جی کے تبادلے میں اعظم سواتی کا کردار نہیں لیکن تبادلہ اْسی دن کیا گیا جب آئی جی نے فون سننے سے انکار کیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو کس چیز کے آئی جی لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مارا پیٹا گیا، آپ سے کہا داد رسی کریں لیکن آپ بھی مل گئے۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرکے کہاکہ عامر ذوالفقار، آپ کے بارے میں میرا تاثر بہت خراب ہوگیا ہے'۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی آگیا کہ وزیر کے ساتھ پولیس نے خصوصی برتاؤ کیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے۔ عہدے کا غلط استعمال کرنے والا کیسے صادق اور امین ہو سکتا ہے۔ ہم اعظم سواتی کو 62 ون ایف کا نوٹس کر دیتے ہیں کیونکہ پولیس نے تو پرچہ درج کرنا نہیں۔ اس موقع پر عدالتی معاون نے بتایا کہ جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی نے 2 اثاثوں کے بارے میں غلط بیانی کی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی نے کچھ معاملات میں نیب کو مداخلت کی سفارش کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے؟ اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کے روبرو کہا کہ ان کے موکل کے خلاف فوج داری مقدمہ ہے، عدالت پولیس کو ٹرائل کے لیے ہدایات دے سکتی ہے تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا نہیں جا سکتا۔ عدالت ایف بی آر کو اثاثوں کی تفتیش کا حکم بھی دے سکتی ہے جبکہ یہ معاملہ چیئرمین سینٹ کے ذریعے الیکشن کمیشن کو بھیجا جا سکتا ہے۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر مس ڈیکلریشن کا کیس ہو تو 62 ون ایف کے تحت نا اہل کرنیکی کارروائی ہوسکتی ہے۔ جس پر عدالت عظمیٰ نے عدالتی معاون کی تجویز پر اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کرے گا۔ اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم پارلیمنٹ کی بے انتہا عزت کرتے ہیں۔ عدالت کا پہلے دن سے یہی موقف ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس شہادتیں اکٹھی کرنے سمیت ٹرائل کے مکمل اختیارات ہیں۔ بعدازاں اعظم سواتی کے معاملے کی رپورٹ آنے تک سماعت ملتوی کر دی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس کیس میں اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے۔ اس معاملے کو منطقی انجام تک پہنچانا ہے تاہم کس جوڈیشل فورم نے اس مسئلے کو دیکھنا ہے آپ بتا دیں۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے عدالت کا آگاہ کیا کہ اعظم سواتی اور طاہرہ سواتی کی بیرون ملک سے آنے والی آمدن اور ان کے یہاں پر اثاثوں میں واضح فرق ہے جب کہ ایک ارب 57 کروڑ روپے کی رقم ان کے پاس موجود ہے اور بیرون ملک سے آنے والی رقم 90 لاکھ 70 ہزار ڈالر ہے۔ فیصل صدیقی نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اگر جائیداد کی معلومات درست نہیں دی گئی تو اس پر رکن پارلیمنٹ کی نااہلی بنتی ہے۔ چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے استفسار کیا کہ آپ کا تو امریکہ میں داخلہ بند ہے؟۔ اعظم سواتی نے مؤقف اختیار کیا میں نے خود 1996 میں امریکی شہریت ترک کر دی تھی تاہم اب میں نے امریکہ کے ویزے کے لیے درخواست دی ہوئی ہے کیونکہ بطور پاکستانی شہری مجھے امریکہ کا ویزا لینا پڑتا ہے۔ دریں اثناء سپریم کورٹ نے 54 ارب روپے کے قرضوں کی رقم واپس کرنے کے لیے8 ہفتوں کی آخری مہلت دے دی اور متنبہ کیا کہ اگر کوئی قرض واپس نہیں کرے گا تو اس کا معاملہ خصوصی بینچ میں چلا جائے گا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پہلے 26 لوگوں نے پہلا آپشن استعمال کیا اس کے بعد 13 مزید لوگوں نے پہلا آپشن استعمال کیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے رضا کارانہ واپسی کا آپشن لیا وہ خوش قسمت تھے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 12 اگست 2018 کے آرڈر کی کچھ لوگوں نے تعمیل کی ہے کچھ نے نہیں کی۔ جس پر وکیل قرض خواہ نے مؤقف اپنایا کہ ہمیں آخری سماعت کا حکم نامہ نہیں ملا اس پر نظر ثانی چاہتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ فیصلہ نہیں لکھا گیا، اسی لیے کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن لوگوں نے پیسے دے دیئے ہیں ان کی حد تک مقدمہ ختم کر دیتے ہیں اور جن لوگوں نے یہ آپشن نہیں لیا وہ پچھتائیں گے۔ جس پردرخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے موقف اختیار کیا کہ باقی لوگ بھی پہلا آپشن لینا چاہتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ باقی لوگ 2 مہینے کے اندر سپریم کورٹ رجسٹرار آفس میں پیسے جمع کرا سکتے ہیں، جو جمع نہیں کرائیں گے ان کے معاملات طے کرنے کے لیے خصوصی بینچ بنے گا جو واجب الادا رقم کا تعین کرے۔ عدالت عظمیٰ نے حکم دیا کہ جمع کروائی گئی رقم پر بینک اور نہ ہی فنانشل اداروں کا کوئی کلیم ہے۔ کسی کا کلیم نہ ہونے کی وجہ سے قرضوں سے واپس کی گئی رقم دیامر بھاشا ڈیم فنڈ میں جمع ہوگی۔ بعدازاں کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس نے شریف خاندان کی شوگر ملز منتقلی کیخلاف نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ حکومت کو کیس بھجوانے کی استدعا پہلے بھی مسترد کر چکے ہیں اورنظرثانی میں کیس حکومت کو نہیں بھجوا سکتے۔ شریف خاندان کی جانب سے وکیل ملک قیوم پیش ہوئے۔وکیل شریف خاندان نے استدعا کی کہ عدالت معاملہ حکومت پر چھوڑ دے۔ وکیل ملک قیوم نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ پڑھنے اور تیاری کیلئے وقت دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کردی۔ مزید برآں آئی جی اسلام کی جانب سے سرکاری رہائش پر غیر قانونی قبضے کا معاملہ سپریم کورٹ نے معاملہ وزیر ہاؤسنگ کو دیکھنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ لال مسجد آپریشن کرنے آئے تھے اور فلیٹس پر قبضہ کر لیا، اگر قانون پر عمل کرنے والوں نے خلاف ورزی کرنی ہے تو کام کیسے چلے گا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سرکاری رہائش پر غیر قانونی قبضہ کیس میں آئی جی اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سی ڈی اے ممبر کا گھر تھا وہاں آپ رہ رہے ہیں، آئی جی اسلام آباد نے جواب دیا کہ میرے علم میں یہ بات ابھی آئی ہے، وکیل سی ڈی اے نے کہا اسلام آباد میں دو سو کوارٹرز پولیس نے تاحال خالی نہیں کئے، سیکرٹری ہاؤسنگ نے کہا کہ کراچی میں سرکاری گھر خالی کرنے کے لیے حکومت نے اراکین اسمبلی پر مشتمل کمیٹی بنائی ہے، کراچی کے علاوہ 563 سرکاری رہائشیں غیر قانونی قبضے میں تھیں، پانچ سو سولہ گھر واپس لے لئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں امن عامہ کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی، اس لئے دو مہینے کا وقت دیا، گورنر سندھ نے مجھے فون کیا، وہ بذات خود کام کر رہے ہیں۔

مزیدخبریں