منگلاڈیم اور اہل پوٹھوہار

پوٹھوہار اور کشمیر کے لوگوں کا ایک دوسرے کے لیے احترام ،تعلق واسطے اور رشتہ داریاں ہمیشہ بے مثال رہی ہیں ، سن ساٹھ سے پہلے دونوں علاقے ایک جیسے تھے ، سڑکیں اُدھر بھی کچی تھیں اور اِدھر بھی ، لوگ پیدل یا گھوڑوں پر سفر کرتے تھے ، دونوں طرف کے لو گوں کے حالات بھی ایک جیسے تھے، غربت دونوں طرف تھی ،کسی کو محرومی کا احساس نہیں ہوتا تھا ،میں چھوٹا تھا تو ایک بار اپنے والد کے ساتھ آبائی گائوں بالیما ء سے کھڑی شریف پیدل گیا ، کچا راستہ تھا کچھ عرصے بعد میرے ایک تایازاد بھائی کی شادی تھی تو ہم بارات لے کر آزاد پتن سے پلندری تک پیدل گئے ،سڑک کچی تھی ،بعد میں دوسرے تایازاد بھائی کی شادی ہوئی تو ہم پیدل چلتے ہوئے ایک دن آزاد پتن سے پلندری پہنچے رات وہاں گزاری ،دوسرے دن صبح چلے تو شام کو بلوچ پہنچے ، سڑک کچی تھی مگر کوئی پریشانی نہیں ہوئی ۔سندھ طا س معاہدے کے تحت دریائے جہلم پاکستان کے حصے میں آیا اس پر حکومت پاکستان نے منگلاڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ، واپڈا نے کام شروع کرنے سے پہلے کشمیر کے متاثرین کو پنجاب میں نہری مر بعے دے کر آباد کیا اور پوٹھوہار کے صرف ایک گائوں سلطان پور کے متاثرین کو پنجاب میں نہری مربعے دیے گئے اور باقی تحصیل سوہاوہ، گوجر خان، کلر سیداں کے متاثرین کو سندھ میں زمینیں دینے کا علان کیالیکن پوٹھوہار کے کسی متاثر کو کسی بھی زمین کا قبضہ نہ مل سکا پھر دیکھتے ہی دیکھتے دریا کے اُس طرف کشمیر میں سڑکیں ،بجلی ،تعلیمی ادارے ،اسپتال بننے لگے ،ترقی اتنی تیزی سے ہوئی کہ ہمارے سامنے چند سالوں میں کشمیر میں خوشحالی نظر آنے لگی لیکن ہم پوٹھوہاری پسماندہ کے پسماندہ ہی رہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ احساس ہُوا کہ پوٹھوہار کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے ، منصوبے کا نام منگلاڈیم رکھنے سے کشمیر ی بھائیوں کے دلوںمیں یہ مغالطہ ہوا کہ منگلاڈیم صرف کشمیر کو متاثر کر کے بنا ہے لہذا اس کے فوائد پر صرف اُن کا ہی حق ہے حالانکہ میرپور آزاد کشمیر کے علاوہ ضلع جہلم کی تحصیل دینہ ،اور
سوہاوہ ضلع راولپنڈی کی تحصیل گوجرخان اور تحصیل کلر سیداں کے علاقے بھی متاثر ہوئے ،حکومت انصاف سے کام لیتی تو اس کا نام سلطان پور منگلاڈیم رکھا جاتا تو پھر آزاد کشمیر اور پوٹھوہار کا مشترکہ اثاثہ تسلیم کیا جاتا ۔ لیکن ڈیم کی تعمیر کے منصوبے کے بعدکشمیر کو ترقی دے دی مگر پوٹھوہار کے علاقے پر ایک روپیہ بھی نہیں خرچ کیا گیا۔ محرومی کا یہ احساس اُس وقت مزید بڑھ گیا جب پرویز مشرف دورمیں منگلا ڈیم کی توسیع کا منصوبہ شروع ہوا ،حکومت اُس وقت چاہتی تو ماضی میں پوٹھوہار کے ساتھ کی گئی نا انصافیوں کا ازالہ کر سکتی تھی لیکن اس نے تو ظلم کر دیا ،پنجاب حکومت بھی تماشہ دیکھتی رہی ،کشمیر یوں کو ابتدائی منصوبے کے وقت کی اضافی ادا ئیگیاں بھی کی گئیں ،زمینوں،جائیدادوں ، دکانوں ، مگانوں ، مدرسوں، مساجد اور کھیت کھلیان کے معاوضے مارکیٹ ریٹ سے ادا کر دئیے گئے ، رہائشی کالونیاں الگ سے بنا کر دی گئیں مگر پوٹھوہار کے رہائشیو ں کو کوئی معاوضہ نہ دیا گیا اور نہ ہی اطلاع دی گئی جس کے نتیجہ میں منگلاڈیم کی توسیع کی وجہ سے پوٹھوہار کے متاثرین جھیل میں ڈوب گئے ۔متاثرین نے جب ظلم کے خلاف احتجاج کیا تو واپڈانے انہیں کہا کہ تین سال پہلے پنجاب گورنمنٹ کو خط لکھا تھاکہ پوٹھوہار کے جو متاثرین ہیں اُن کے معاوضے تیار کریں لیکن پنجاب حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ واپڈا کا وہ خط بھی اب ریکارڈ کا حصہ ہے جو حکومت پنجاب کو لکھا گیا، ظلم کی یہ داستان اب بھی ختم نہیں ہوئی ، وہ ڈیم جو ہمیں ڈبو کر بنایا گیا اُسی سے پیدا ہونے والی سستی بجلی کے منافع سے ایک پیسہ بھی پوٹھوہار کی ترقی پر خرچ نہیں کیا جا رہا،دریائے جہلم کے کنارے بسنے والے پوٹھوہاریوں کو بجلی فراہمی کے لیے مجھے بھوک ہڑتال کرنا پڑی ، دھان گلی سے بالیما تک پختہ سڑک کی تعمیر کا مطالبہ کرتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے علاقے میں آبادی کتنی ہے ،سکول کا مطالبہ کریں ، اسپتال مانگیں تب بھی یہی پوچھا جاتا ہے اللہ کے بندو سڑک ، بجلی ہو گی تو آبادی ہوگی ورنہ آبادی شفٹ ہوتی جائے گی۔ایک سیاسی کارکن کے طور پر میں سمجھتا ہوں کہ نا انصافی محرومی کے احساس کو جنم دیتی ہے جو غصے میں تبدیل ہوکر نفرت کی حد تک چلاجاتا ہے ، پوٹھوہار کے ساتھ مسلسل نا انصافی کا سلوک بھی محرومی کے شدید احساس کا باعث ہے ،منگلاڈیم سیعی پراجیکٹ کے تحت از خود طے کیے گئے شرمناک معاوضے متاثرین کی بڑی تعداد کو ابھی تک ادا نہیں کیے گئے ۔
وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان عمران خان سے میرا مطالبہ ہے کہ وہ پوٹھوہار کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی تحقیقات اور حق تلفیوں کے ازالے کے لیے فوری اقدامات اُٹھانے کا حکم دیں ، منگلاڈیم سے پن بجلی کی پیداوار کے خالص منافع پر ہمارا حق تسلیم کرتے ہوئے پوٹھوہار میں سڑکیں ،پانی،بجلی ،گیس ،علاج اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات اور سہولیات فراہم کی جائیں ،میر پور انتظامیہ کو پوٹھوہار کی دریائی حدود سے مچھلی کے شکار سے روکا جائے۔
پوٹھوہار میں چرا گاہیں بھی تباہ ہو چکی ہیں ،لوگوں کے پاس گزر اوقات کا کوئی ذریعہ نہیں،ہمارایہ جائز مطالبہ ہے کہ جو ترقی منگلاڈیم کی تعمیر سے کشمیر کے حصے میں آئی ہے وہی ترقی پوٹھوہار کو بھی دی جائے ،ہم خیرات نہیں اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ورنہ ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کے ریاست ہماری سگی نہیں سوتیلی ماں ہے۔ہمارا د عویٰ ہے کہ ہم آج بھی پتھر کے دور میں جانوروں والی زندگی جی رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن