دنیا میں جب بھی مسئلہ کشمیر پر کوئی پیش رفت ہوتی نظر آتی ہے تو کوئی نہ کوئی بلائے ناگہانی اس پیش رفت کی راہ میں سد سکندری بن کر حائل ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکی ایوان نمائندگان میں مسئلہ کشمیر پر ایک بھرپور بحث ہوئی جس میں درجنوں امریکی ممبران پارلیمنٹ نے شرکت کی اور حصہ لیا ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ نے مسئلہ کشمیر کے حل کشمیریوں پر مظالم کے خاتمے، کشمیر کا محاصرہ ختم کرنے اور مواصلاتی رابطہ بحال کرنے ، دو ایٹمی ممالک کے درمیان ممکنہ جنگ کے خطرے سے بچنے اور کشمیریوں کو اپنی مرضی سے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کے حق میں دلائل دئیے۔ چند ایک نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کے باوجود وہاں کے خطرناک حالات ختم کرنے اور وہاں جمہوری عمل بحال کرنے پر زور دیا۔ یہ ایک بڑی پیش رفت تھی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے۔ ابھی تک تو مقبوضہ کشمیر کے کشمیری بھی اس پیش رفت سے پوری طرح آگاہ نہیں ہو سکے تھے کہ وہاں کرفیو محاصرے اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے خبریں بہت کم پہنچ رہی ہیں۔ تاہم بیرون ملک آباد کشمیریوں کے لئے یہ بہت بڑی پیش رفت تھی۔ ابھی یہ خوش کن پیش رفت چل ہی رہی تھی کہ بغداد میں امریکی حملے سے ایران کے ایک اہم فوجی کمانڈر کی ہلاکت نے سارا پانسہ پلٹ دیا اور دنیا بھر کی توجہ کشمیر سے اور بھارت میں مسلم اقلیت کی جاری شہریت ایکٹ کے خلاف تحریک سے ہٹ گئی اس وقت ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور اس کے جواب میں ایران کی طرف سے جوابی کارروائی کی دھمکی اور امریکہ کی طرف سے ایران کے اہم مقامات کو نشانہ بنانے اور عراق پر بھی ایران کی طرح پابندیاں عائد کرنے کی خبریں ہاٹ ایشو بنی ہوئی ہیں۔ باقی سب خبریں پس پشت چلی گئی ہیں۔ اسے ہم کشمیریوں کی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ بھارت کو مسئلہ کشمیر پر عالمی دبائو سے نکلنے کا ایک اور سنہری موقع ہاتھ آ گیا۔ اب جنوبی ایشیاء سے زیادہ خلیج فارس کا میدان گرم ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دنیا بھر کے عوام اس خطے میں جو درحقیقت کالے سونے یعنی تیل کا سمندر ہے ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں مظلوم کشمیریوں کی کون سنے گا جو 158 روز سے بھوکے پیاسے بنا علاج معالجے کے 9 لاکھ بھارتی فوجیوں کے محاصرے میں کرفیو کی اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ سسک سسک کے جی رہے ہیں مر رہے ہیں عالمی برادری سے کیا گلہ کرنا۔ اسلامی امہ تک ان کی تکالیف اور نسل کشی سے بے نیاز ہے۔ ملائیشیا سمٹ میں شرکت سے انکار کے بدلے میں جہاں مسئلہ کشمیر اٹھانے کا وزیر اعظم عمران خان کے پاس سنہری موقع تھا۔ عرب ممالک کی زرخرید لونڈی او آئی سی نے جسے 57 اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہونے کا دعویٰ ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اپنا ہنگامی اجلاس بلانے کا اعلان کیا ہے وہ کسی شرمناک مذاق سے کم نہیں کیونکہ یہ اجلاس 10 یا 15 جنوری کو نہیں اپریل 2020ء میں طلب کیا گیا ہے۔ یعنی 3 ماہ بعد ۔ پھر بھی اسے ہنگامی اجلاس کہا جائے تو یہ مظلوم ستم زدہ کشمیریوں کے ساتھ ایک المناک مذاق سے کم نہیں۔ کیونکہ موجودہ حالات میں جب بھارت پر عالمی دبائو کم ہو گیا ہے دنیا کی نظریں ہٹ رہی ہیں 4 ماہ کشمیریوں کی نسل کشی کرنے اور ان کی جاری تحریک آزادی کو کچلنے کے لئے بہت ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے ملائیشیا کانفرنس میں ملکی معیشتی بحران اور عربوں کے مالی دبائو کے سبب شرکت سے انکار کر کے مسئلہ کشمیر کو بھرپور طریقہ سے اٹھانے کا موقع کھو دیا ہے۔حالانکہ وزیراعظم عمران خان خود اس کانفرنس کے داعی تھے اور کشمیر کاز کی عالمی سطح پربھرپور نمائندگی بھی کر چکے تھے۔ اب اگر پاکستان کے ساتھ ساتھ ترکی، ملائیشیا اور ایران کی طرف سے بھارت پر دبائو پڑتا اسے اندازہ ہو جاتا کہ ملائیشیا سمٹ کانفرنس او ئی سی کی طرح کوئی ڈمی اتحاد نہیں ہے جو مصلحت کا مارا ہوا ہے۔ ملائیشیا سمٹ ایک جاندار اور طاقتور گروپ کا نمائندہ ہے جو امت مسلمہ کو درپیش مسائل کے حل کے لئے او آئی سی سے زیادہ بہتر اور جارحانہ انداز اختیار کر کے اسلامی امہ کی آواز عالمی اداروں اور عالمی طاقتوں تک پہنچا سکتا ہے۔
بہرحال جو ہوا سو ہوا اب اس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ فی الحال امریکہ ، ایران تنازعہ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈالتا ہوا نظر آتا ہے۔ پاکستان اگر چاہے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ بس امریکی حمایت کے بدلے میں امریکہ سے کشمیر طلب کر لے تو…
امریکہ‘ ایران تنازعہ کا مسئلہ کشمیر پر منفی اثر
Jan 09, 2020